انتخابِ غزلیاتِ میرؔ ۔ محمد حمید شاہد


ستمبر 2021 میں میرؔ کی برسی کے موقع پر بک کارنر جہلم نے نوید سنائی کہ ایک نیا انتخاب غزلیات میرؔ منظر عام پر آنے کو ہے جس کے مدون محمد حمید شاہد صاحب ہیں۔ پھر جب فیس بک کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ یہ انتخاب شمس الرحمن فاروقی صاحب کی ”شعر شور انگیز“ (بعض اوقات کتابت کی غلطیاں بھی لطیفے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ابھی میں نے انگیز کو انگریز لکھ دیا تھا) کی بنیاد پر کیا گیا ہے تو میرے انتظار کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جب اکتوبر میں یہ کتاب میرے پاس پہنچی تو میں نے اس کی اطلاع حمید شاہد صاحب کو دے دی۔ اس کا مقصد اپنی کتاب دوستی یا میرؔ فہمی کی تشہیر وغیرہ نہیں بلکہ ایک بڑے آدمی سے بات کرنے کا بہانہ تھا۔ مگر ایسی جرات کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ حمید شاہد صاحب نے مجھ سے یہ کہہ دیا کہ انہیں اس کتاب پر میری رائے کا انتظار رہے گا۔ اب کہاں میں اور کہاں حمید شاہد صاحب۔ اور رائے دوں بھی تو کس پر۔ میرپر؟ شمس الرحمن فاروقی پر؟ حمید شاہد پر؟ خامہ انگشت بدنداں۔

‎ اس کتاب کا بنیادی اصول اگر آپ کو معلوم نہیں تو عرض کیے دیتا ہوں کہ ”شعر شور انگیز“ میں جن منتخب اشعار کو زیر بحث لایا گیا ہے وہ مکمل غزلیں (یا دو غزلے ) ترتیب وار میسرکر دیے گئے ہیں اور شعر شور انگیز کے حوالے بھی ساتھ ساتھ دے دیے گئے ہیں۔ کتاب کے آخر میں فرہنگ بھی مہیا کر دی گئی ہے۔ کتاب میں میرے لئے نہایت دلچسپ اور کارآمد حصہ حمید شاہد صاحب کا مقدمہ ہے۔ یہ مقدمہ آج کے قاری کے لئے یوں لکھا گیا ہے کہ وہ اسے غیر ضروری تفاصیل بیان کر کے بور بھی نہیں کرتے اور کسی اہم بات سے محروم بھی نہیں رہنے دیتے۔ میر کی زندگی اور تصانیف کا اجمالی جائزہ فراہم کرنے کے بعد ایک نہایت دلچسپ حصہ میرؔ کے بارے میں اکابرین اردوادب کی آراء ہیں۔ اور ہر ادیب کی رائے (بزبان شعر) نقل کرنے سے پہلے چند سطروں میں ہر ایک کا جومختصر اور جامع تعارف کروایا گیا ہے وہ بھی بہت پرلطف ہے۔

‎اور پھر ہم پہنچتے ہیں اس مقدمہ کے سب سے اہم حصے کی طرف جو کہ میرؔ صاحب کا مقدمہ ہے یعنی ”شعر شور انگیز“ ؛کی جلدوں کی ابتدا میں لکھے گئے ہیں شمس الرحمن فاروقی کے دیباچے۔ اگر آپ چار چھ صفحوں میں یہ جاننا چاہتے ہیں کے فاروقی صاحب نے میرؔ کا مقدمہ کیسے لڑا تو حمید شاہد صاحب نے آپ کے لئے سہولت پیدا کردی ہے۔ مگر یہ خلاصہ ایسا ہے کہ آپ کو اصل مضامین کی طرف جانے کی تحریک بھی دے گا۔

‎میرؔ کی زبان سازی کے عمل کے بارے میں جو چند مثالیں پیش کی گئی ہے وہ ایک ایسی تشنگی سی چھوڑ جاتی ہیں جو شاید اس باب میں مزید کام ہونے سے سیراب ہو سکے۔

‎ آخر میں ناشران کو داد دینا بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑی بات تو ایسے منصوبے کا بیڑا اٹھانا ہے۔ اورپھر طباعت کا معیار، ترتیب، دواوین کا عکس سبھی لائق تحسین ہیں۔ سرورق کی مصور سعدیہ اور احمدعلی بھٹہ جیسے مایہ ناز خطاط کے فن نے اشاعت کو چار چاند لگا دیے۔ سو اس کتاب کی اشاعت کے عمل میں شامل تمام لوگوں کو بہت مبارک باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments