سکّھر بیراج کی تعمیر کو نوے برس مکمل ہو گئے


13 جنوری کے دن، ‘لائیڈ بیراج سکھر’ المعرُوف سکهر بيراج کی تعمير و افتتاح کو 9 دہائياں مکمّل ہو رہی ہیں اور یہ دن سکھر بيراج کی 90 ویں سالگرہ کا دن ہے۔ ‘لائیڈ بیراج‘، سندھ کے تیسرے بڑے شہر، سکّھرکے قريب (سکّهر اور روہڑی کے درميان) دریائے سندھ پر واقع ملک کا طويل ترين بیراج ہے، جسے پاکستان کے نظامِ آبپاشی کا فخر کہا اور سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دنیا میں اپنی نوعیّت کا سب سے بڑا واحد آبپاشی نیٹورک ہے۔ جو 1923ء سے 1932ء کے درميان، برطانوی راج کے دوران، 9 برس میں تعمیر کیا گیا، جسے “لائیڈ بیراج” کا نام دیا گیا۔ یہ بيراج شمال میں ضلع سکھر سے، سندھ کے جنوب میں میرپورخاص، عمرکوٹ، تھر اور حیدرآباد کے اضلاع سميت صوبے کے تقریباً تمام حصّوں کو سیراب کرتا ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت کراچی کے شمال مشرق میں تقریباً 500 کلومیٹر (300 میل) کے فاصلے پر، ریلوے پُل یا سکھر گھاٹی سے 5 کلومیٹر (3 میل) نیچے (پانی کے بہاؤ کی جانب) واقع ہے۔ اس بیراج کی تعمير سے، خطّے میں مربُوط نظامِ آبپاشی کو يقينی بنانے کے لئے، سندھ کے موجودہ زیرِ کاشت علاقوں کے لئے بروقت پانی کی زیادہ فراہمی ممکن ہو سکی۔
سندھ تقریباً کلّی طور پر دریائے سندھ کے پانی پر ہی انحصار رکهتا ہے، کیونکہ يہاں زیرِ زمین پانی بہت محدود ہے۔ سندھ میں سالانہ اوسطاً 100 سے 200 ملی میٹر تک بارش ہوتی ہے، جبکہ بُخارات کی شرح، ايک تا 2 ہزار ملی میٹر کے درمیان رہتی ہے۔ اس لحاظ سے سندھ تقريباً ايک بنجر علاقہ ہے، اور یہ صرف ‘سندھُو ندی’ ہی ہے، جو سندھ کی ان بنجر زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔ سندھ میں زیرِ زمین پانی کی دستیابی کا جائزہ لینے کے لئے ابھی تک کوئی باضابطہ مُستند سروے نہیں کیا گیا۔ تاہم مختلف ذرائع کے اندازے کے مطابق، اس کا حجم 3 سے 5 ایم اے ایف کے درمیان ہے، جو سندھ کے کُل جغرافیائی رقبے کے 28 فیصد میں بکھرا ہوا ہے۔ تاہم، کچھ ماہرین، اسے ان اندازوں سے کم بتاتے ہیں۔ یہ پانی بنیادی طور پر “انڈس واٹر چینلز” اور چند قدرتی زیرِ زمین ندیوں میں پایا جاتا ہے۔
  
سکھر بیراج کا تصوّر، مسٹر ‘سی۔ اے۔ فائف’ نے 1868ء میں پیش کیا تھا، جبکہ اس اسکیم کا آغاز بمبئی کے گورنر ‘سر جارج لائیڈ’ نے کیا تھا، جنہیں بعد میں ‘لارڈ لائیڈ’ کے نام سے بهی جانا گيا۔ جبهی ان کی نسبت سے، اس بیراج کا نام اُن کے اعزاز میں ‘لائیڈ بیراج’ رکھا گیا۔ تاہم، اس منصوبے کی حتمی منظُوری، 1923ء میں دی گئی۔ اور اسے معروف برطانوی سِول انجنيئر، ‘سر چارلٹن ہیریسن ــ سی آئی ای’، کی بطور چیف انجینئر، مجموعی ہدایات پر تعمیر کیا گیا۔ جبکہ ايک اور ماہر برطانوی سِول انجنيئر، ‘سر آرنلڈ مستو ــ سی آئی ای’، اس اسکیم کے ڈزائن کے خالق (آرکیٹیکٹ) اور انجینئر تھے۔ برطانوی امپیریل سروس سے متعلق شخصيت، سیّد غلام مصطفیٰ نے بھی اس بیراج کے ڈیزائن اور تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ہیڈ ورکس اور نہروں کی تعمير 1932ء تک مکمّل ہوئی۔ جن کی تکمیل پر اس بيراج کا باضابطہ افتتاح، اُس وقت کے ‘وائسرائے ہند’ ــ ہِز ایکسیلینسی ‘دی فرسٹ ارل آف ولنگڈن’ نے 13 جنوری 1932ء کو کيا۔
لائیڈ بیراج سکھر کی تعمير کے 72 برس بعد، 2004ء میں اس کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور تقسیم کی کارکردگی کو بحال کرنے کے لئے، حکومتِ پاکستان نے سکّھر بیراج کی بڑے پیمانے پر بحالی کا کام شروع کیا۔ یہ کام پاکستان آرمی انجینئرنگ کور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف۔ ڈبلیُو۔ او۔) نے 22 نومبر 2004ء کو شروع کیا تھا، جسے 15 ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے جولائی 2005ء میں مکمّل کیا گیا۔ ماہرینِ آبپاشی کے مطابق، بیراج کی اس بحالی سے اس کی کارکردگی میں مزید 60 سے 70 سال تک کے استعمال کے لئے اضافہ ہو گيا۔
لائیڈ بیراج کو دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ آبپاشی اور سیلاب پر قابو پانے کے اہم اور کليدی مقاصد لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج، جو پورے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتا ہے، پانی کو بہنے کے قابل بناتا ہے، جو کہ اصل میں 9,923 کلومیٹر (6,166 میل) طويل 7 نہروں کا نیٹورک ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام مہّيا کرتا ہے، جس میں سے 7.63 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی گزرتا ہے۔ جس سے سیراب ہونے والی زمین، ملک کے کُل نہری طور پر سیراب رقبے کا تقریباً 25 فیصد بنتی ہے۔ اس بیراج کو برقرار رکھنے والی دیوار میں 66 اسپین (آؤٹ فال گیٹس) يعنی نيم گول شکل کے دروازے ہیں، جن میں سے ہر ایک 18 میٹر (60 فٹ) چوڑا اور 50 ٹن وزنی ہے۔ ان 66 دروازوں کی وجہ سے اس بيراج کو عرفِ عام میں، عام لوگ “66 دروازوں والا پُل” بھی  کہتے ہیں۔ عام مقامی لوگ اس بيراج کو “سکهر والا پُل” بھی کہتے ہیں۔ اس بيراج کی تعمير کی تاریخ کو محفوظ  کرنے کے لئے دريائے سندھ کے بائيں کنارے پر، اس بيراج کے اختتامی گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا مگر خوبصورت ميُوزيم بھی تعمير کيا گيا ہے، جو ہر خاص و عام کے دیکھنے کے لئے ہر روز دفتری اوقات میں کُهلا رہتا ہے، جس میں رکھے ماڈلز اور بيراج میں استعمال ہونے والے مٹّی خواہ پتهر کے سيمپلز کو دیکھ کر لائيڈ بيراج کی تعمير کی تاریخ کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
لائیڈ بیراج کے ذريعے سندهُو دريا سے 7 نہریں بہتی ہیں۔ اس کی دائیں جانب سے نکلنے والی تین نہروں ميں ‘دادُو کينال’، ‘رائيس کينال’ اور ‘نارتھ  ویسٹرن کينال (جسے ‘کِهير تهر کينال‘ بھی کہا جاتا ہے۔) شامل ہیں۔ جبکہ بائیں جانب سے نکلنے والی چار نہروں ميں، ‘نارا کينال’، ‘روہڑی کينال’، ‘خیرپور فِیڈر ایسٹ کينال’ اور ‘خیرپور فِیڈر ویسٹ کينال’ شامل ہیں۔ نارا کینال، جو کہ اس بیراج سے نکلنے والی ان 7 نہروں میں سے ایک ہے، پاکستان کی سب سے طويل نہر ہے، جو لندن شہر کے بِيچوں بيچ بہنے والے “دریائے تهیمز” کے تقریباً مساوی پانی لے جاتی ہے۔ اس کے پیٹ کی چوڑائی 105 میٹر (346 فٹ) ہے۔ جو کہ ‘نہر سُویز’ (سُويز کينال) سے ڈیڑھ گُنا بڑی ہے۔ درحقیقت نارا کینال، انسانی ہاتھوں سے بنائی ہوئی نہر نہیں ہے، کیونکہ یہ سندھ کے سابقہ‘دریائے ہاکڑو’ کا سب سے جنوبی حصّہ تھا، جو دريائے ستلج کے دامن سے نکلتا تھا، اور وسطی پنجاب اور بہاولپور کے میدانی علاقوں سے گزرنے کے بعد، بارانی نہر کے راستے ‘نارا’ میں شامل ہو جاتا تھا، جس کی باقیات (بہاؤ کی نشانياں) اب بھی سندھ کے گھوٹکی تعلقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ نہر (نارا کينال)، 9 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر (23 لاکھ ایکڑ) کے رقبے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
لائیڈ سکهر بیراج کی ايک اور (دُوسری) سب سے بڑی نہر ‘روہڑی کینال’ ہے، جس کی لمبائی نارا کینال سے تھوڑی کم ہونے کے باوجود، پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ يہ 11 لاکھ ہیکٹر (26 لاکھ ایکڑ) کے قابلِ کاشت رقبے کو آباد کرتا ہے۔ اس نہری نظام پر اُگائی جانے والی اہم فصلوں میں کپاس، گندم اور گنّا شامل ہیں۔ دریائے سندھ کے بائیں جانب چاروں نہریں اور دائیں کنارے پر دو نہریں بارہ ماسی نہریں ہیں، جو سارا سال آبپاشی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ساتویں نہر یعنی ‘رائيس کینال’، دائیں جانب ایک موسمی نہر ہے، جو صرف خریف کے موسم میں بہتی ہے۔ جسے سندھ کے شمالی اضلاع، بالخصُوص لاڑکانہ اور دادُو میں چاول کی کاشت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ دائیں کنارے کی ايک اور نہر، ‘اين ڈبلیُو کينال’ (کِهيرتهر کينال) 3 لاکھ 91 ہزار ہیکٹر (9 لاکھ 65 ہزار ایکڑ) کے رقبے کو بارہ ماسی آبپاشی فراہم کرتی ہے۔ جس میں سے 74 ہزار ہیکٹر (1 لاکھ 84 ہزار ایکڑ) زمين، صوبہء بلوچستان میں واقع ہے۔
دریائے سندھ کی شناخت، ‘اندهی بِلہنڑ’ (بلائنڈ ڈولفن) عام طور پر لائڈ بیراج کے اوپر والے حصّے میں (بيراج میں داخل ہونے سے پہلے والے پانیوں میں) پائی جاتی ہے۔
لائيڈ بیراج، پچھلے ان 90 برسوں میں صرف ذريعہء آبپاشی کی حيثيت سے ہی نہیں، بلکہ سندھ کی ثقافت کے اہم جُز کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ جس کا ذکر اِس کم و بیش ایک صدی کے مقامی ادب میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس ذکر کو سندھ کے نثر و نظم میں کئی جگہ پڑھا جا سکتا ہے۔ سندھ کا صدیوں پرانا جشن کا لوک گيت “جمالو”، جو پہلے پہل تحريری صُورت میں ہمیں کم و بيش ايک ہزار برس پہلے سُومرا دورِ حکومت میں قلمبند ملتا ہے، اور اس گیت کو آج بھی سندھ بھر میں خوشی کی محفلوں کے انتہائی اختتام میں گايا جاتا ہے۔ اس لوک گيت میں بھی دیگر لوک گیتوں کی طرح مختلف ادوار میں ان زمانوں کی تاریخ کے لحاظ سے مختلف سطروں کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس گیت (جمالو) میں بھی اس بيراج کی تعمیر کے بعد ايک سطر کا اضافہ ہوا، جو تھی: “جيکو سکهر واریء پُل تے ــ ہو جمالو!” (ترجمہ: ‘وہ جو سکھر بيراج پہ براجمان ہے، وہ جيت کر آيا ہے۔’)
اس کے علاوہ سندھی زبان کے معروف افسانہ نویس، نسيم کهرل کے مشہور افسانے “چوٹرِیہوں دَر” (چوہنتيسواں دروازہ) کا جائے وقوعہ بھی سکھر بيراج ہی ہے۔ جس میں ایک واردات کے بعد ايک شخص کی نعش اس بيراج کی حدود میں دريائے سندھ میں پائی جاتی ہے۔ اس بيراج کے 66 اسپین آؤٹ فال گیٹس (دروازوں) میں سے 33 سکھر پولیس کی حدود میں آتے ہیں، جبکہ باقی 33 دروازے روہڑی پوليس اسٹیشن کی حدود میں واقع ہیں۔ اس افسانے کے مطابق ہلاک ہونے والے کردار کی نعش، جو بيراج کے 33 ويں دروازے میں پهنسی ہوئی پائی گئی تھی، اسے ان میں سے ایک شہر کی پوليس، اس کيس کو حل کرنے سے بری الذّمہ ہونے کے لئے نکلوا کر 34 ويں دروازے میں اٹکا دیتی اور یہی عمل اگلے روز دُوسرے شہر کی پوليس کی جانب سے بھی کیا جاتا۔ جب اس عمل کو تين چار مرتبہ تواتر کے ساتھ ہوتے اس واقعے کا عينی شاہد، اور شکايت درج کرانے والا بيراج کا ملازم (کردار) دیکھتا ہے، تو پولیس کی اس بے حسی پر اس نے اُس آؤٹ فال گیٹ کو کھول کر نعش کو بہہ جانے دیا، جس میں وہ جسدِ خاک اس دن اٹکايا گيا تھا۔لائيڈ بيراج سکهر سندھ کی آبپاشی، مواصلات، معيشت، تاريخ، ثقافت اور ادب کا ایک اہم حصّہ ہے، جسے ماضی قريب سے اس خطّے (وادیء مہران) کی پہچان بننے والے عناصر میں گِنا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments