مری کا المناک سانحہ


ماہ ستمبر کی بات ہے، ہمیں مری جانے کا اتفاق ہوا، گاڑی پہ موٹر سائکل کو ترجیح دی، لیکن تنگ راستوں کے باعث عام دنوں میں بھی موٹر سائکل پھنس پھنس کر چل رہی تھی۔

اس وقت تصور کیا کہ برف کے ایام میں لوگ نہ جانے کیسے یہاں آ جایا کرتے ہیں، اتنے تنگ راستے، ٹریفک اور سیاحوں کا جم غفیر۔

سانحہ مری نے سب کو افسردہ کر دیا ہے، اور ساتھ ہی حکومتی دعوؤں کے پول بھی کھول کے رکھ دیے ہیں، محمکہ موسمیات نے کچھ ایام قبل ہی انتباہ جاری کر دیا تھا کہ صورتحال بگڑ سکتی ہے، برف کا طوفان آ سکتا ہے، لیکن اس انتباہ کو نہ حکومت کسی خاطر میں لائی اور نہ ہی عوام، حکومتی تقصیر یہ ہے کہ ایک شہر میں جہاں محض چار ہزار گاڑیوں کو پارک کرنے کی جگہ ہے، وہاں 1 لاکھ 30 ہزار گاڑیوں کو کیسے داخل ہونے دیا گیا؟

جبکہ حکومت ان تمام حالات سے واقف بھی تھی۔

اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ سیاحت کے لئے مری کا رخ کرنے والوں کی اچھی طرح راہنمائی کا انتظام کرتی، اور حالات بگڑنے سے پہلے پہلے مری کی طرف جانے والے تمام راستے بلاک کر دیتی، لیکن افسوس کے ساتھ کہ ایسا نہیں ہوا، اور جب حکومت خواب غفلت سے بیدار بھی ہوئی تو تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔

یہ تو رہی ایک عمومی تقصیر کی بات، لیکن ہمارے ہاں اس کے علاوہ اجتماعی آگاہی کی بھی بہت کمی پائی جاتی ہے، ہونا تو ایسے چاہیے تھا کہ ہمارے سیاحتی اور موسمیات کے محکموں کے مابین کوئی ربط ہوتا، محکمے موسمیات کے مشوروں کو سامنے رکھتے ہوئے محکمہ سیاحت سیاحتی مقامات کو شارٹ لسٹ کرتا ما بعد اس کے اجتماعی آگاہی پھیلائی جاتی، یوں سیاحوں کی ترجیحات میں رد و بدل دیکھنے کو ملتا، لیکن افسوس کہ یہاں سیاسی بے سود جنگوں سے کسی کو فرصت میسر ہی نہیں کہ ان امور پہ توجہ دے۔

دوسری جانب ہماری حکومت کی حالت یہ ہے کہ کل تک حکومت وزرا سیاحوں کے بیش بہا اضافے اور حاصل ہونے والے منافع کا کریڈٹ لیتے نہیں تھک رہے تھے، لیکن آج ان کی جانب سے ذمہ داری اور غلطی تسلیم کرنے کے بجائے الٹا سیاحوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اور ایک طرح سیاسی میدان میں بلیمنگ گیم کی ابتدا ہو چکی ہے۔

ایسے واقعات و سانحات وہ لمحے ہوتے ہیں، جب حکومت اور عوام کے مابین قربتیں پیدا ہوتی ہیں یا پھر نفرتوں کے خلیج کھڑے ہوجاتی ہے، یہاں عوام اور حکومت کے مابین نفرت کی خلیج تو قائم ہوتے نظر آ رہی ہے، لیکن قربتیں پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اللہ ہی نگہبان ہو اس وطن کا اس عوام کا، عوام نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے، تو نہ جانے اور کتنے سانحات رونما ہونے کو منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments