جب شاستری نے بھٹو سے جان چھڑانے کی خواہش ظاہر کی


امریکہ کی طرف سے ”انتظار کرو اور دیکھو“ کی پالیسی کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان یکم ستمبر انیس سو پینسٹھ کو باقاعدہ ”فل سکیل“ جنگ چھڑ چکی تھی۔ لیکن جب امریکہ سے ثالثی کی درخواستیں ہونے لگیں، اور انڈیا و پاکستان دونوں نے اصرار شروع کیا تو صدر جانسن نے دونوں ملکوں میں مقیم اپنے سفارتکاروں سے کہا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ دونوں ملکوں کا جنگ بندی کے بارے میں کیا موقف ہے، اور سیکورٹی کونسل کی جنگ بندی کی اپیل پر ان کا رد عمل کیا ہے۔

اس سلسلے میں چار ستمبر انیس سو پینسٹھ کو ایک اہم ٹیلیگرام ہندوستان میں قائم امریکی سفارت خانے سے محکمہ خارجہ کو ارسال کی گئی۔ اس ٹیلی گرام میں امریکی سفیر چیسٹر بولز نے لکھا کہ

”ہفتہ کے دن بارہ بج کر پندرہ منٹ پر میں پرائم منسٹر لال بہادر شاستری سے ملا۔ تقریباً پینتیس منٹ جاری رہنے والی اس گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار بڑے ٹھنڈے دماغ اور بہت واضح انداز میں کیا۔ برطانوی ہائی کمشنر جس نے کل وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی، ان کا بھی ایسا ہی تاثر تھا۔ کم از کم یہ واضح ہے کہ ہم ایک پاگل آدمی کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے ہیں، جو جذباتی ہو کر کوئی طوفانی فیصلہ کرنے والا ہے۔ اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شاستری لازمی طور پر دانشمندانہ فیصلے ہی کریں گے، لیکن اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ وہ اندھے غصے میں کام نہیں کریں گے۔

میں نے شاستری کو بتایا کہ پاکستان انڈیا کے موجودہ حالات میں کم از کم ایک نقطہ واضح ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ انڈیا کی حکومت اب کیا کر رہی ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے ہی صورتحال کو ہمہ گیر جنگ میں دھکیلنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو ، انڈیا اس کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ جو کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے تحمل سے بھارت کے لیے ایک مضبوط مقدمہ قائم کر کے پاکستان کے لیے جنگ کا راستہ مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ اگر ان حالات میں پاکستان کو جنگ کے حق میں ہی فیصلہ کرنا ہے، تو شاستری کا اپنا ذاتی اور ہندوستان کا کردار سوال سے بالاتر ہو جائے گا، اور دنیا بھر کے مفکرین ان کی حمایت کریں گے۔

میں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ ساشتری نہ صرف اپوزیشن کی طرف سے بلکہ کانگریس پارٹی کے اندر لوگوں کی طرف سے بھی شدید سیاسی دباؤ میں ہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ اس وقت امن قائم کرنے کے کسی بھی سمجھوتے پر تنقید کریں گے۔ تاہم میں نے پرائم منسٹر کو انیس سو اکسٹھ کی صورت حال کی یاد دلائی، جب سوویت یونین کے ساتھ ہمارے اپنے تعلقات خاصے دھماکہ خیز مرحلے پر تھے، اور امریکی صدر نے اقوام متحدہ کے سامنے جا کر یہ بیان دیا تھا کہ اگرچہ امریکہ اپنے مفادات کے دفاع کے لیے تیار ہے، خواہ اس کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے، لیکن وہ اس سے بڑھ کر امن کے لیے بے چین ہے۔ اور پر امن حل کی تلاش میں سوویت یونین سے آدھے راستے میں ملنے کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر کی اس تقریر کا پوری دنیا میں پرتپاک استقبال کیا گیا، اور امریکی عوام کی بھاری اکثریت نے اس کی بھرپور حمایت کی۔ امریکی عوام نے اس حقیقت پر فخر کا اظہار کیا کہ عالمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ان کے صدر کے بس میں جو کچھ بھی ہے، وہ کر رہے ہیں۔

جواب میں شاستری نے ان اصولوں کی تعریف کی، اور اتفاق کا اظہار کیا، جو میں نے بیان کیے، تاہم انہوں نے کہا کہ انیس سو اکسٹھ میں ہمارے حالات اور پینسٹھ کے ہندوستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔ امریکہ کی فوجی اور اقتصادی طاقت پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ لیکن، دنیا ہندوستان کو کمزور، ڈوبتا ہوا اور منقسم ملک سمجھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ جارحانہ پالیسی کو اس غلط مفروضے پر استوار کر رہا ہے۔

میں نے جواب دیا کہ امن قائم کرنے کے لیے مضبوط آدمی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ایک کمزور رہنما جنگ شروع کر سکتا ہے۔ میں نے شاستری سے پوچھا کہ وہ سیکورٹی کونسل کی جنگ بندی کی کی اپیل کا جواب کیسے دینا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کی رائے میں تین نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

پہلا نقطہ یہ ہے کہ ”نیمو رپورٹ“ کو پبلک کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ یہ رپورٹ سیکرٹری جنرل نے تین ستمبر کو سیکورٹی کونسل میں پیش کی تھی۔ کشمیر کے حالات پر یہ تفصیلی رپورٹ اقوام متحدہ کے کشمیر میں فوجی مبصر جنرل رابرٹ ایچ نیمو کی رپورٹ کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کو عام کرنے کی بات کرتے ہوئے ساشتری نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سرحدی مبصرین کے پاس پولیس کی طاقت نہیں تھی، یعنی ان کے پاس جسمانی ذرائع سے لڑائی روکنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

یہ بات شروع سے ہی واضح ہو گئی تھی کہ ان کا کردار صرف یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو بتائیں کہ کشمیر میں اصل میں ہو کیا رہا ہے، تاکہ دنیا کو دونوں ممالک کے متضاد پروپیگنڈا دعووں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ سیکورٹی کونسل خود نیمو رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے کہ الزام کہاں لگایا جانا چاہیے؟ سیکورٹی کونسل نے چونکہ اپنی امن کے قیام کی طاقت کو بڑھانے کے لیے غیر جانبدار پوزیشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ رپورٹ کم از کم عوام کے علم میں آ جائے، حالانکہ اس رپورٹ میں کچھ معاملات میں ہندوستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن یہ رپورٹ سامنے لانا ضروری ہے، تاکہ عالمی رائے عامہ کو حالات کا علم ہو سکے۔

اگر اقوام متحدہ کے مبصرین اس کام کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں تو ، انہیں کشمیر بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ رپورٹ کی اشاعت کے بعد پاکستان کو پانچ اگست سے سرحد عبور کرنے والے باقی دو سے تین ہزار در اندازوں کو واپس لینے پر رضامند ہونا چاہیے۔ جب تک پاکستان کی طرف سے در اندازوں کو واپس نہیں لیا جاتا، پرامن حل کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی مبصر ٹیم کے عملے میں اضافہ کیا جائے، تاکہ وہ پورے علاقے کی موثر کوریج کر سکیں۔

اس کے بعد شاستری نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک اس وقت یہ نہیں سمجھیں گے کہ مسئلہ کشمیر کے طویل مدتی حل پر بات کرنے کا یہ اچھا وقت ہے۔ اس وقت ہم جارحیت کی وجہ سے ہونے والی جنگ کے قریب ہیں۔ لہذا یہ مسئلہ کشمیر جیسے مسائل پر غور کرنے کا وقت نہیں ہے۔ انہوں نے پوری امید ظاہر کی کہ آخر کار ایسا ماحول پیدا ہو سکتا ہے، جو ان مسائل کے بارے میں سوچ سمجھ کر بات کرنے کی اجازت دے گا، جنہوں نے گزشتہ سترہ سالوں میں دونوں پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات کو روکے رکھا ہے۔

کسی دن اگر ایوب خان کا دل بدل جاتا ہے، اور وہ بھٹو سے جان چھڑا لیتے ہیں، تو ایک وسیع معاہدہ امن ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر نہیں تو شاید ایوب خان کے جانے کے بعد ایسا ہو سکے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ پاکستان کے موجودہ مزاج نے اب ایسی کسی بھی کوشش کو روک دیا ہے۔ اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور دیگر حکومتیں ہندوستان پر مسئلہ کشمیر جیسے موضوع پر بات کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گی، جن پر موجودہ ہنگامہ آرائی میں بحث مناسب نہیں۔ آگے چل کر صورتحال نے کیا موڑ لیا، اس کا جائزہ آئندہ سطور میں لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments