بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیاں


ملک کی انتظامی مشینری کی بڑھتی خرابیاں باعث ہیجان و اضطراب بنتی جا رہی ہیں اور ہر شخص کے لبوں پر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ حکومت ان خرابیوں کی اصلاح پر توجہ کیوں نہیں دے رہی؟ اس میں شبہ نہیں کہ نظم و نسق میں خرابیوں کی وجوہ متعدد ہیں، لیکن ان میں ایک وجہ ایسی بھی جو بالکل بین ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ارباب اختیار کو اس کا علم اور احساس ہی نہیں ہوتا کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں اور ان کی زندگی کس طرح اجیرن ہو رہی ہے، زندگی کے کسی گوشے کو بھی لیجیے، اس کے متعلق ایسا لگتا ہے کہ انہیں کبھی معلوم ہی نہیں ہونے پاتا کہ عوام کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے کام بغیر کسی قسم کی دقت اور دشواری کے سرانجام پا جاتے ہیں، عوام کی حالت سے باخبر رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان حضرات کا عوام کے ساتھ ربط رہے۔ وہ خود کو عوام میں ایک، اور عوام انہیں اپنے میں ایک سمجھیں، لیکن اس قسم کا ربط تو ایک طرف، ان میں اور عوام میں اس قدر بے گانگی ہوتی ہے کہ عوام کی کوئی بات ان کے گوش مبارک تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔

یاد رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں عوام کی تقدیریں دی جائیں، جب تک وہ سمیع و بصیر اور خبیر و علیم نہ ہوں، وہ اپنی ذمے داریوں سے کبھی عہدہ بر آ نہیں ہوسکتے، وہ ہر شکایت کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ لوگ نظم و نسق کی خرابیاں بیان کرنے میں خوامخواہ کا مبالغہ کرتے ہیں۔ ایک اور سوال عموماً بارہا دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم اور بنیادی مسائل کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب ہر صاحب فکر اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے دے گا، لیکن عوامی مسائل پر پارلیمان کا کیا کردار ہے، اس پر اب کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ کیا پارلیمان حقیقی معنوں میں مملکت کو، جو حالت بھنور میں گھری کشتی کی مثل بن چکی، مسائل سے نکالنے کے لئے کوئی قدم کسی سمت بڑھانے میں معاون بن رہے ہیں یا نہیں۔

یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اتنا ہی مشکل اور ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ پارلیمان کا کردار آئین میں واضح ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کتنا ہو رہا ہے، اس کے مظاہر شرمندگی سے سر جھکانے کے لئے کافی ہیں، لیکن اس کی درستی کی ذمے داری بھی خود اراکین پارلیمان پر ہی عائد ہوتی ہے کہ کسی بدانتظامی کا حل انہیں خود ہی نکالنا ہو گا۔ پارلیمان سے باہر سیاسی حل نکالنے کا غیر سیاسی تجربہ ماضی میں کبھی خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔

عوام کے مسائل کا حل درحقیقت پارلیمان اور اداروں کے ہاتھ میں ہے اور پارلیمان کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ایک ہی اور وہ ہے قانون سازی۔ انتظامی خرابیوں کو اگر دور کیا جاسکتا ہے تو وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے، لیکن حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ بدانتظامی سے ہر طبقہ تنگ آ کر کہنے لگ جاتا ہے کہ اس مسئلے کا حل اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ چہرے نہیں نظام بدلو، لیکن کون سا نظام، کس کو پسند ہے، یہاں اس قدر اختلافات ہیں کہ اس پر طویل بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے، ہر چند کہ جمہوریت اور آمریت کے نام پر رائج تمام نظام آزمائے جا چکے۔

حالات سے دل برداشتہ ہو کر اس نتیجے پر پہنچنا بھی ایک لحاظ سے حق بجانب ہے، لیکن ہماری اس روش کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ قانون کی عمل داری نہ ہونے اور انتظامی بدنظمی و خرابیوں سے پورے معاشرے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے اور کسی ایسی قدر مشترک پر اتفاق ہونا بھی ناممکن ہو جائے گا، جو مسائل کا حل نکالنے کے لئے سودمند ہو سکتی ہو۔

انتظامی خرابیاں، قریباً ہر ادارے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ ایسے ادارے، جن کا کام کسی ادارے کی بدانتظامی کو درست کرنا ہوتا ہے، وہاں بھی انتظامی خرابی کی نئی اشکال ہوتی ہے۔ صاف و شفاف نظم و نسق کا تصور شاید کتابوں میں ہی اچھا لگتا ہے، اس لئے ہر سو جب عملی طور پر واسطہ پڑتا ہے تو گوناگوں مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ عدم برداشت کے اس ماحول میں آپ اپنا اظہاریہ بھی کھل کر اس لئے نہیں لکھ سکتے، کیونکہ جن حالات سے واسطہ پڑتا ہے، اس کے مضر اثرات سے بھی بچنا اہم ہوتا ہے۔

انتظامی کارکردگی کے لئے سب سے احسن طریقہ قانون کا نفاذ اس کی درست تشریح کے ساتھ ضروری ہے۔ قاعدے قانون اور ضابطے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں، تاکہ حق کے مطابق کیے جانا ہی کسی کامیابی کی عملی دلیل بن سکے۔ قانون پر عمل درآمد ہونے میں احتساب کا خوف ہی کسی انتظامی خرابی کو دور کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ خرابی کسی بھی نہج پر ہو، احتساب کا نفاذ اور عمل کا معیاری میزان ہی معاشرتی بگاڑ کو کم کر سکتا ہے۔

حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، لیکن اس کی رٹ کا پہلا زینہ انتظامی معاملات پر ٹھوس گرفت ہونے سے بنتا ہے۔ انتظامی رویے میں مصلحت اور کوتاہ اندیشی سے نقصانات کا اشاریہ بڑھ جاتا اور عوام میں بداعتمادی و مایوسی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے، جس کے نتائج ہر حال میں کسی بھی صورت سودمند نہیں ہوتے۔ عوام کو قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہر دور میں بدانتظامی کا سامنا کسی نہ کسی صورت رہا، شاید یہی وجہ ہے کہ احتساب کا عمل بھی کمزور اور ناتواں رہا، جس کے نتیجے میں قانون کا خوف اور رٹ متاثر ہوئی، ہر نئے دور میں انتظامی خرابیوں کی نئی قسم متعارف ہوئی اور حالت یہ ہو چکی کہ کسی ایک مرض کا علاج مکمل ہوتا نہیں کہ دوسرے جگہ زخم بگڑنے لگ جاتا ہے۔

محکمے یا ادارے انسانوں سے بنے ہیں، اس لئے غلطیوں اور کوتاہی سے مبرا نہیں ہوسکتے۔ یہ کسی خودکار نظام کے تحت نہیں چلتے، اس لئے اس میں کسی بھی بے انتظامی کا ہونا خارج از امکان نہیں، تاہم غلطی کو سمجھ اور مان کر بنیادیں درست کرلینا سب سے اہم نکتہ بن جاتا ہے، کیونکہ معاشرے کی دیوار انہی بنیادوں پر رکھی جانی ہے، اگر اس میں کجی ہوئی تو پوری عمارت کا سیدھا ہونے کا تصور، خود فریبی اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف کہلائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments