بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز : قسط 10


2019 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد جو اپنی شناخت ایک یہودی کی حیثیت سے کرواتے ہیں، ان کی دنیا بھر میں تعداد 14.7 ملین ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی کا صرف 0.2 فیصد ہے۔ انہیں (Core Jews) کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے والدین میں سے ایک یہودی تھا انہیں (Connected Jews) کہا جاتا ہے۔ ایسے یہودیوں کی تعداد 17.9 ملین بنتی ہیں۔ ایک تیسری طرح کے یہودی بھی ہیں جن کو (Enalrged Jews) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا یہودی پس منظر ہے لیکن یہودی والدین نہیں ہیں اور ایسے لوگ یہودی لوگوں سے ملتے ملاتے رہتے ہیں اور ان سے متاثر بھی تھے۔ ان کی آبادی 20.9 ملین ہے۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو ہر طرح کے یہودیوں کو ملا کر ان کی مجموعی تعداد پچاس ملین سے زائد ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی 0.6 فیصد ہے۔

اس وقت اسرائیل کی کل آبادی 9.3 ملین ہے جن میں بیس فیصد (یعنی تقریباً اٹھارہ لاکھ) مسلمان ہیں۔

یاد رہے اسرائیل کے قیام کے وقت اسرائیل کی آبادی ایک ملین کے قریب تھی۔ شاید ہی کسی ملک کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہو۔ تاریخ ایسی مثال دینے سے قاصر ہے۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں، ابھی بھی ہر سال لاکھوں یہودی یہاں آ کر آباد ہو رہے ہیں اور جو اضافہ نئے پیدا ہونے والے بچوں کی وجہ سے ہو رہا ہے وہ الگ ہے۔ جو بھی یہودی یہاں آتا ہے وہ واپس نہیں جاتا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ آنے والے چند سالوں میں یہودیوں کی آبادی نوے فیصد سے بھی زائد ہو جائے جو ابھی اسی فیصد کے قریب ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کو تقسیم فلسطین کے بعد کی تاریخ اور اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والے واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اسرائیل اور فلسطین کی موجودہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورت حال سے بھی آپ کو آگاہ کروں۔ یہ یقیناً آپ کو پورا مسئلہ سمجھنے میں مدد دے گا۔

موجودہ فلسطین اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق ایک آزاد مملکت ہے۔ جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں واقع ہے۔ اس کا صدر مقام یروشلم ہے لیکن یروشلم کے کچھ حصے پر اسرائیل کا بھی دعویٰ ہے۔ عملی طور پر رملہ فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ اسرائیل کے معرض وجود میں آنے سے قبل یہ سارا علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس پر انگریزوں نے قبضہ کیا اور بعد میں اردن اور مصر بھی اس پر قابض رہے۔ پھر ایک معاہدے کے تحت فلسطین کا کچھ حصہ اسرائیل کی شکل میں سامنے آیا۔

اس وقت فلسطین دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ مشرق میں ہے جسے ویسٹ بنک کہا جاتا ہے یہ بحیرہ مردار اور دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہے۔ دوسرا حصہ ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر (غزہ کی پٹی کی صورت میں ) مغرب میں بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے جس کی جنوبی سرحد مصر اور شمال اور مشرق میں اسرائیل سے ملتی ہے۔ ویسٹ بنک کی سرحد مشرق میں اردن جبکہ شمال، جنوب اور مغرب میں اسرائیل سے ملتی ہے۔ اس طرح سے فلسطین دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ایک ملک ہے جس کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیں۔

اوسلو معاہدے کے مطابق مغربی کنارے میں واقع علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا اٹھارہ فیصد حصہ فلسطینی حکومت کے زیر انتظام ہے جبکہ بائیس فیصد حصہ مشترکہ طور پر اسرائیل اور فلسطینی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ جبکہ ساٹھ فیصد حصہ ( مشرقی یروشلم کے سوا) اسرائیلی سول انتظامیہ کے زیر انتظام ہے۔ ان علاقوں میں آنے جانے کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہیں۔

فلسطین کی حکومت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تنظیم ریاست فلسطین کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ پی ایل او مختلف بین الاقوامی تنظیموں میں بھی شامل ہوتی ہے۔ (اس کے بارے میں تفصیل اگلے صفحات میں بیان کی جائے گی) ۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 15 دسمبر 1988 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے باقاعدہ طور پر فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے 193 ممبر ممالک میں سے اب تک 138 ممالک ریاست فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ریاست فلسطین کو تسلیم نہیں کرتے مگر پی ایل او کو ”فلسطینی عوام کا نمائندہ“ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک گنجلک سا نظام ہے جسے سمجھنا کافی مشکل ہے۔

آج سے پانچ سال قبل 23 دسمبر 2015 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں موجود قدرتی وسائل پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ اس قرارداد کو 164 ملکوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ پانچ ملکوں نے اس کی مخالفت کی۔

فلسطین کی قانونی حیثیت کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ کئی ممالک اسے ایک متنازعہ علاقہ گردانتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے اس کے ساتھ دو طرفہ سفارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور نظر آتی ہے کہ ویسٹ بنک اور غزہ کی پٹی کے علاقے میں فلسطین کی حکومت کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن وہاں بھی بہت سے معاملات میں اسے اسرائیل پر ہی بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحد ہر سال سکڑتی جاتی ہے، نئی یہودی بستیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ریاست فلسطین کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے اور اس کا رقبہ چھ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

فلسطین میں خواندگی کی شرح 96.3 فیصد سے بھی زائد ہے۔ فلسطین میں مسلمان آبادی 93 فیصد جبکہ چھ فیصد کے قریب عیسائی آباد ہیں۔ دیگر مذاہب کے ماننے والے تقریباً ً ایک فیصد

ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے ویزے کی کافی سختی کی جاتی ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک کے لوگوں کو اسرائیل جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ فلسطین جانے کے لیے ویزے کی زیادہ سختی نہیں ہے۔

البتہ یو این او میں یہ بطور مصر شریک ہوتا ہے۔ اس کا بھی یہ کہنا ہے کہ یروشلم اس کا صدر مقام ہے لیکن عملاً اس کے تمام دفاتر رملہ میں ہیں جو کہ یروشلم سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ فلسطین کی سرکاری زبان عربی ہے۔ اس کا سیاسی نظام کسی حد تک صدارتی ہے اس وقت اس کے صدر محمود عباس ہیں اور وزیراعظم کا نام محمد Shtayyeh ہے۔ قانون ساز ادارے کا نام نیشنل کونسل ہے۔

یوں تو فلسطین صدیوں سے قائم ایک ملک ہے لیکن موجودہ حالات میں 15 نومبر 1988 کو اس کے قیام کا اعلان کیا گیا اور 2012 میں یو این او میں بطور مصر آ جانے کی اجازت دی گئی۔ یہ بھی ایک بد قسمتی ہے کہ ابھی تک فلسطین کوایک مکمل خود مختار ریاست کا درجہ نہیں مل سکا۔

فلسطین کا کل رقبہ 6 ہزار مربع کلومیٹر جس میں غزہ کی پٹی کا رقبہ 365 کلومیٹر ہے جہاں

اب 20 لاکھ لوگ آباد ہیں جبکہ ویسٹ بنک کا رقبہ ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں 30 لاکھ لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق فلسطین کا جی ڈی پی 26 بلین ڈالر اور فی کس آمدنی چھ ہزار ڈالر ہے۔ (پاکستان میں فی کس آمدن پانچ ہزار ڈالر ہے ) ۔ فلسطین میں شرح خواندگی 90 فیصد سے بھی زائد ہے۔

اگر حالات ٹھیک ہوں تو ہر سال چالیس سے پچاس لاکھ لوگ فلسطین میں سیاحت کے لیے آتے ہیں یہاں پانی جیسے تمام تر معاملات پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ انہی کی مرضی سے فلسطینیوں کو زندگی کی ضروریات ملتی ہیں۔

اسرائیل مغربی ایشیاء میں بحیرہ روم کے جنوب مشرقی کنارے اور بحر احمر کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں اور غزہ کی پٹی کے ساتھ ملتی ہے۔ تل ابیب ملک کا معاشی اور سیاسی مرکز ہے۔ اسرائیل کے اعلان کے مطابق دارالحکومت یروشلم ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اور اس کے لیے کئی بار کوشش بھی کی گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ یروشلم کے مغربی حصے پر اسرائیل قابض ہے۔

1920 سے 1948 تک اس سرزمین پر انگریزوں کا قبضہ رہا۔ اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین کے لیے ایک الگ ملک بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے مطابق دو ریاستوں کا قیام اور یروشلم کو ایک بین الاقوامی شہر کے طور پر رکھے جانے کی تجویز پیش کی گئی۔ جسے یہودیوں نے قبول کیا لیکن عرب اس کے حق میں نہیں تھے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں 1948 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اسرائیل نے اس کے بعد سے اب تک عرب ممالک کے ساتھ متعدد جنگیں لڑیں۔ آخری جنگ 1967 میں ہوئی جسے چھ روزہ جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد بھی کئی جنگیں اور کئی معاہدے ہوئے جن میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ بھی شامل ہے۔ اوسلو معاہدہ بھی قابل ذکر ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود امن دور دور تک نظر نہیں آتا۔

اس وقت موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل ایک یہودی اور جمہوری ریاست ہے۔ اس میں ایک پارلیمانی نظام رائج ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ یہاں یہودی مذہب کے ماننے والے 75 فیصد، مسلمان آبادی کا اٹھارہ فیصد جبکہ دو فیصد عیسائی ہیں۔ باقی لوگوں کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔

جی ڈی پی کے لحاظ سے اسرائیل دنیا کی 31 ویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہاں بسنے والے ساٹھ فیصد سے زائد لوگ فوجی تربیت یافتہ ہیں

تل ابیب، یروشلم، بیر شیبہ اور حائفہ اسرائیل کے چار بڑے شہر ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال نئی یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں اور دنیا بھر سے یہودی لوگوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اسرائیل کی سرکاری زبان عبرانی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک سرکاری زبان عربی تھی۔ اب

اس کا درجہ کم کر دیا گیا ہے ۔ عربی اب اقلیت کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ یاد رہے انگریزوں کے دور میں سرکاری زبان انگریزی تھی۔ البتہ انگریزی کی عالمی حیثیت کی وجہ سے ایک عام اسرائیلی بھی انگریزی بول لیتا ہے۔ فلسطین کی سرکاری زبان عربی ہے۔

اسرائیل میں پارلیمانی نظام ہے۔ چند روز قبل جب میں نے یہ تحریر لکھنا شروع کی تو اس وقت نیتن یاہو وزیر اعظم تھے۔ وہ پچھلے بارہ سال سے برسر اقتدار ہیں۔ انہوں نے ہی جنگ رمضان میں فلسطین پر بے شمار ظلم ڈھائے تھے۔ جنگ بندی کے چند دن بعد ہی ان کے خلاف ایک سیاسی محاذ بنا اور 13 جون 2021 کو Naftali Bennettکو اسرائیل کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا ہے۔

اسرائیل کا جی ڈی پی 372 بلین ڈالر ہے ( پاکستان کا جی ڈی پی 272 بلین ڈالر ہے ) ۔ اس کی فی کس آمدنی چالیس ہزار ڈالر سے بھی زائد ہے۔ اسرائیل میں شرح خواندگی 98 فیصد اور ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں اسرائیل کا شمار بھی پہلے چند ممالک میں ہی ہوتا ہے۔

اس وقت یو این او کے 192 ممالک میں سے 164 ممالک کے ساتھ اسرائیل کے اچھے سفارتی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں چند مسلمان ممالک (جن میں بحرین، یو اے ای، سوڈان اور مراکش شامل ہیں ) نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ کسی دور میں ایران کے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے جو کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ختم ہو گئے۔

اسرائیل کی فوج ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ ہر اسرائیلی شہری پر فوجی تربیت حاصل کرنا لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ وہ اپنی آمدن کا ایک بہت بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بے شمار ترقی کی ہے۔ ہر سال چالیس لاکھ سے زائد لوگ اسرائیل میں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےعرب اسرائیل پہلی جنگ 1948- قسط نمبر 9فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں: قسط نمبر 11

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments