ایک خطرناک بیماری


دنیا میں بہت سی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ کئی بیماریاں جسمانی و نفسیاتی ہیں تو کئی بیماریاں روحانی ہیں۔ کچھ بیماریاں بہت ہی قدیم ہیں تو کچھ جدید، شاید جو جدید ہیں وہ بھی قدیم ہی ہیں پر انسان نے ان کی تشخیص ابھی کی۔ ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی ہوتی اور اس کا علاج بھی ہوتا ہے۔

ان بیماریوں سے ایک قدیم اور خطرناک بیماری حسد بھی ہے۔ جس کو حسد ہو جائے اسے حاسد کہتے ہیں جس پر حسد ہو جائے اسے محسود کہتے ہیں۔ حسد کو قدیم ترین بیماری کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہو گا، یہ بیماری انسان کی تخلیق سے بھی پہلے کا ہے، ابلیس کو بھی مردود بنانے کی وجہ بھی یہی بیماری بنی۔ یہ ایسا وائرس ہے جو ہر نفس سے چمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی نے قابیل کے ہاتھوں ہابیل کو قتل کروایا۔ اس نے برادران یوسف کو سیدنا یوسف کو کنویں میں ڈالنے کی ترغیب دی۔ اسی بیماری کی وجہ سے بہت سے یہودی و نصاریٰ اسلام سے آج تک دور ہیں۔

اس بیماری کی بہت سی وجوہات ہیں پہلی بڑی وجہ اللہ تعالی کے عادل ہونے پر یقین نہ کرنا ہے کیوں کہ تمام عطائیں اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ہیں چاہے کسی کو کم عطا کرے کسی کو زیادہ کسی کو کچھ عطا کرے تو کسی کو کچھ۔ کسی سے عطا کرنے کے بعد واپس اٹھا لے سب اس مالک حقیقی کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔ حاسد جب حسد کرتا ہے تو اللہ کی عدل و رضا کا انکار کر بیٹھتا ہے کیوں کہ جو اس کے پاس ہے وہ بھی اللہ کی رضا ہے اور جو دوسرے کے پاس ہے وہ بھی اللہ ہی کی رضا سے ہے۔

حسد کی بہت سے اقسام ہیں۔ مختصراً ذکر کیا جائے تو تین ہیں۔ اول یہ کہ میرے پاس نہیں فلاں کے پاس کیوں ہے۔ دوئم یہ کہ فلاں سے چھین کر یہ بھی میرا ہی ہو۔ سوئم فلاں کے پاس سے بھی چھین جائے پھر بیشک مجھ سے بھی چلا ہی جائے۔ حسد کی ہر ایک قسم بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہے مگر تیسری قسم شرمناک بھی ہے۔

حسد کی تیسری قسم پر ایک مثال بھی دی جاتی ہے کہ ایک درویش شخص دریا کے کنارے ایک ٹانگ پر اپنی مراد و مقصد کے حصول کے لیے اللہ کے سامنے دعائیں مانگ رہا تھا پھر ایک دوسرا شخص بھی بالکل اسی طرح ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر دعائیں مانگنے لگ جاتا ہے اسی طرح اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیج دیا جاتا ہے کہ وہ جاکر ان اشخاص کی مرادیں پوری کر دے۔ فرشتہ جب پہلے شخص کی طرف آتا ہے تو وہ شخص اسے اپنی حاجت بتاتا ہے اور فرشتہ اس کی تکمیل کرتا ہے جب فرشتہ دوسرے شخص سے پوچھتا ہے کہ تجھے کیا طلب ہے تو وہ کہتا ہے میری فقط اتنی سی حاجت ہے کہ جو اس نے مانگا ہے وہ اسے نہ ملے۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے کہ ایمان اور حسد ایک دل میں نہیں رہ سکتے۔ اس مرض کا مریض خود بھی اندر سے جل کر کھوکھلا ہوتا ہے تو کبھی دوسرے کا نقصان بھی کرتا ہے کبھی حسد دشمنی تک کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور کئی گھر اجڑ جاتے ہیں۔

حسد سے بچنے کی ہر طرح کوشش کرنی چاہیے یہ بندے کو محنت سے بھی دور کرتا ہے اور بندہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آخرت اور موت کو کثرت سے یاد کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments