ہم کب سدھریں گئے


کبھی کبھار سوچتا، اور غور کرتا ہوں، ہم نے اپنا رخ کس طرف کر لیا ہے، ہم کس سمت کو نکل گئے ہیں، کس منزل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں آخر۔ ہم بطور مسلمان کیوں اتنے بے حس ہوتے جا رہے۔ ہمارے قدم اس منزل کی جانب جا رہے۔ جہاں شرمندگی اور گہرائی کے سوا آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ چند شہ سرخیاں ملاحظہ کریں۔
حکمراں ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر عوام کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلاول بھٹو۔
مری میں داخلہ روکنے کے لئے راول ڈیم چوک اور سترہ میل چوکیاں قائم۔
جاں بحق افراد کی آبائی علاقے میں تدفین، لواحقین کے لئے 8 لاکھ فی کس امداد کا اعلان۔
معیشت اچھی سمت جا رہی ہے، لاکھوں لوگ مری پہنچ گئے، وزیر اطلاعات فواد چوہدری
مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ۔
سانحہ کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کمیٹی قائم۔

سب سے پہلے مری میں برفباری کے دوران جو اموات ہوئی، اس پر جتنا بھی افسوس اور کتنے ہی آنسو بہائے جائیں، کم ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالی سے کہ ان سب مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے گھر والوں کو اس بڑے صدمے پر صبر جمیل عطا فرمائے۔

یہ حکمران ٹولہ، ان سب کو کرپٹ اور بے حس ٹولہ کہے، تو بے جا نہ ہو گا۔ ایسے حادثوں اور سانحوں پر بھی یہ لوگ سیاست کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ کہیں بھی کسی جگہ بھی اس عوام کے دکھ کو ان لوگوں نے کبھی اپنا دکھ نہیں سمجھا۔ عوام کے زخموں پر یہ بے حس ٹولہ، نمک چھڑکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، سینئر صحافی ارشاد بھٹی نے ایک پروگرام میں ٹھیک کہا، کہ جس طرح وہ لوگ ٹھٹھر ٹھٹھر کر جن کی جان نکلی، اس طرح ان بے حس لوگوں کے اپنوں پیاروں کی جانے نکلے، تو پھر یہ شاید یوں سیاست نہ کرتے۔

یہ سب حکمران، جمہورے، سیاستدان ایک ہی گاڑی اور منزل کے مسافر، آپ یہ روٹی، کپڑا مکان والوں کو دیکھ لے، سندھ کا کیا حال کر دیا۔ اگر یہ سندھ کے حالات ٹھیک کر لے، تو پھر ایسے بے حس جمہروں کی بات پر اعتبار جا سکتا تھا۔

اور ویسے بھی جہاں بزدار صاحب جیسے لوگ بیٹھے ہو، وہاں بیوروکریسی کب لائق ہو گئی، کہ سب انتظام کر لیتی کہ اتنی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔

اب مری کو ضلع بنا بھی دیا جائے، تو وہ لوگ جو ان کی نالائقی کی وجہ سے وہاں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرے، اس کا حساب کون دے گا۔

اگر جو چوکیاں اتنی اموات کے بعد لگائی جا رہی تھی، اگر پہلے ہی لگا لی جاتی تو کیا مسئلہ تھا۔
8، آٹھ لاکھ لواحقین کو دینے سے کیا ان کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا، افسوس صد افسوس۔

حکومت یا انتظامیہ کو اس حادثے کا ذمہ دار سمجھا جائے، یا وہ لوگ جو وہاں گئے ان کو۔ میٹ آفس سے نیو ائیر نائٹ نے 9 جنوری تک شدید برفباری اور سڑکیں بند ہو جانے کی ایڈوائزری جاری کی تھی۔ 6 جنوری کو شدید برفباری سے قبل، حفاظتی اقدامات کی ہدایت کی گئی، لیکن کوئی عملدرآمد نہ ہوا، 7 جنوری شام سات بجے تک 30 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہو چکی تھی۔ شدید برفباری سے راستے بند ہوچکے تھے، انتظامیہ اور سارے جمہوریت کی ج سے بھی ناواقف گرم کمروں میں کمبل اوڑھے سوئے رہے۔ 24 ہیوی مشینیں بھی سنی بنک کے قریب ان ایچ اے آفس میں کھڑی انتظامیہ نے آرام پہ لگائی ہوئی تھی۔ یہ اتنی عقلمند انتظامیہ پاکستان کے ہی کیوں حصے میں آ گئی آخر۔ ویسے جس ملک میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو، سی ایس ایس جیسے بڑے امتحان میں بھی سیکنڈل آئے گئے تو پھر ایسے حالات ضرور پیدا ہوں گے ۔

کس کس کا رونا رویا جائے یہاں، جب ہر بندے کا ہاتھ میں فون، ہر خبر ہر آدمی کی رسائی میں، محکمہ موسمیات نے پہلے ہی آگاہ کر دیا، پھر یہ لوگ اپنی فیملیز کو لے کے اس راستے کیوں چلے گئے، سب سے زیادہ افسوس وہاں کے باسیوں سے، چین کے پیسے وصول کیے جاتے رہے، ہوٹل مالکان نے تو زرپرستی اور بے حسی کی حد ہی کردی۔ جنہوں نے ان مجبور اور بے بس لوگوں پہ بھی ترس نہ آیا، 3 ہزار والے کمرے، 50 ہزار میں دیا گیا، انڈا 30 روپے کی بجائے 500 روپے میں بکا۔

اس ملک کو اس نہج پر پہنچانے میں ہم سب کا ہی ہاتھ ہے، جہاں جس کو بھی موقع ملتا ہے کوئی بھی دھوکا دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ریڑھی والے سے لے کر افسر شاہی تک، کے خون میں دونمبری قطرے قطرے میں شامل ہے۔ مری جیسے کتنے ہی سینکڑوں واقعے ہوئے، کیا ہوا، کچھ بھی نہیں۔

اور رہی بات سانحہ مری کی، کوئی کچھ بھی نہیں ہو گا، جتنی چاہے کمیٹیاں تشکیل دے دی جائے، نتیجہ صفر بٹا صفر ہی رہے گا۔ یہ واقعہ بھی ”رات گئی، بات گئی اور ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی کے نظر کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments