زندگی زندہ دلی کانام ہے!


زندگی کیا ہے؟ زندگی کیسے گزاری جائے؟ زندگی میں خوشی کا عنصر کیوں مفقود ہوتا جا رہا ہے؟ ہر انسان اس قدر پریشان اور دکھی کیوں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہنے کو تو بڑے سادہ ہیں مگر ان کے مفہوم جانتے جانتے آدھی زندگی گزر جاتی ہے۔ زندگی نہیں رکتی مگر وقت کے ساتھ ہم کہی ٹھہر جاتے ہیں۔ زندگی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہر زخم کا مداوا ممکن ہے۔ دل ایک قبر کی مانند ہوتا ہے جس میں سب کچھ دفن ہوجاتا ہے ، آپ کی خواہشات، جذبات، احساسات یہاں تک کہ آپ کے آنسو بھی۔

جو کبھی خوشی میں جھلکتے ہیں تو کبھی دکھ اور تکلیف میں بھی۔ اور بہت سی ان کہی باتوں کو، بہت سے پوشیدہ وجودوں کو بھی اپنے اندر دفن رکھتا ہے۔ اپنے غموں کو اپنے تک محدود رکھیں۔ دوسروں کے سامنے اپنے غموں کا اشتہار مت لگائیں۔ زندگی کا سب سے بڑا نقصان موت نہیں ہے۔ زندہ رہتے ہوئے ہمارے اندر جو مرتا ہے وہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ بس کوشش کریں کہ اپنا آپ ختم نہ ہو۔

جب تک انسان ٹوٹتا نہیں ہے رب سے جڑتا نہیں ہے۔ خالی ہاتھوں میں اپنی کرچیاں لے کر جب بندہ اس کے آگے پاش پاش ہوتا ہے تو وہ سمیٹ لیتا ہے، دوبارہ بناتا ہے اور وہ بہترین مصور ہے اس لیے پہلے سے خوبصورت ہی بناتا ہے۔

اگر کبھی زندگی میں لگے کہ آپ ٹوٹ گئے ہیں، بکھر گئے ہیں تو اپنی ذات کی کرچیاں لے کر اپنے رب کے سامنے جائیں۔ اس رب سے تنہائی میں مناجات کریں دنیا بہت بڑی ہے اس میں اپنی جگہ بنائیں، اپنی پسندیدہ چیزوں سے بھر دیں اور زندگی جینا شروع کر دیں۔ جب آپ کو کبھی لگے کہ سب الٹ ہو رہا ہے، زندگی ہاتھوں سے نکل رہی ہے، آپ تنہا ہو رہے ہیں تو کچھ عرصہ کے لیے وقفہ لے لیں۔ اس دنیا میں بے تحاشا خاموشی اور بے شمار کتابیں ہیں بس!

خاموشی اپنائیں اور کتابوں کو اپنا ساتھی بنا لیں۔ اچھی کتب کا مطالعہ شروع کر دیں، لکھنا شروع کر دیں۔ مثبت باتیں کریں اور زندگی کے ہر پہلو کو مثبت سوچ دیں۔ ڈائری لکھنا انسان کا سب سے بڑا کتھارسس ہے۔ مابعد الطبعیات ہمارے خون کو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ اگر آپ اپنے ایموشنز، Thoughts کو قلمبند نہیں کرتے تو گھٹ گھٹ کر مر جائیں گے۔ بند کمرہ، تنہائی، کھلی کتاب پر مزین الفاظ، لوگوں کے رویے اور سرد لہجوں سے بچنے کے لیے لکھنا اور کتابوں میں پناہ لینا ایک بہترین کتھارسس ہے۔

ریل کی سیٹی کسی کے لیے ہجر کا استعارہ ہے تو کسی کے لیے وصل کی امید۔ جہاں ہجر کی تلخی ہے وہی وصل کی نوید بھی، جہاں غم ہے وہی کہی خوشی بھی در کھولے تک رہی ہوتی ہے بس اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے۔ ہر غم کی ایک مدت ہے۔ غم اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے جسے چیخ و پکار کر کے زائل کر دیا تو جو کچھ پاس ہو وہ بھی کھو جاتا ہے جبکہ اس غم کو خاموشی اور صبر سے سہ لیا تو ہر لمحہ ایسا نادر جوہر آپ کی جھولی میں ڈالتا ہے جو کبھی دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں دے سکتی ہے۔

ایسی ایسی حقیقتیں آپ کے سامنے کھول کر رکھتا ہے جو کبھی کسی کتاب میں نہ لکھی نہ کسی نے سکھائی۔ ایسے بند کواڑ کھول دیتا ہے جن پر زنگ اور کائی بھی جمنا چھوڑ دیتی ہے شاید اس لیے اللہ پاک ہمیں کہتے ہیں کہ مشکل میں صبر کریں اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے۔ اگر غم میں غم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہوجاتا ہے۔ غم کی بڑی کارروائی یہ ہے کہ غم انسان کو بہت ہی نرم کر دیتا ہے۔ اگر غم نہ ہوتو انسان پتھر ہی رہتا۔ غم میں چیخ و پکار انسان کے وقار میں کمی کا باعث بنتی ہے، لوگوں کو اپنی خاموشی سے خوفزدہ کرنا سیکھیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر میری زندگی میں غم و دکھ نہ ہوتے تو میں اپنے رب سے دعا کا رشتہ کیسے نبھاتا۔

بندہ جہاں سے ٹوٹ جاتا ہے اسی دراڑ سے اللہ کا نور اس میں داخل ہوجاتا ہے ۔ اللہ کی دوستی کے بعد پھر ایک وقت آتا ہے جب آپ کو تنہائی سے ڈر نہیں لگتا، اکیلے رہنا برا نہیں لگتا، آنکھ میں لوگوں کی وجہ سے آنسو نہیں گرتے، کوئی بات کرے یا نہ کرے دل مطمئن رہتا ہے۔ بس اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں، اس کی چٹخی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہوجائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے۔

مشکلیں حل ہو جایا کرتی ہیں، راستے بھی نکل آتے ہیں بس انسان کا یقین مضبوط ہونا چاہیے۔ انسان کو یہ اعتماد اور بھروسا ضرور ہونا چاہیے کہ اللہ ہے اور اس کے ساتھ ہے۔ مشکلیں وہی حل کرے گا، راستے وہی بنائے گا بس اس ذات پر کامل یقین رکھیے۔ صبر کریں، بے فکر رہیں، جس رب نے اتنے دھیان سے، اتنے پیار سے آپ کا دل بنایا ہے وہ آپ کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ بس آپ کو صبر کرنا سیکھنا ہے۔ پریشانی میں مبتلا شخص جانتا ہے کہ کسی کی تسلی سے اس کی اداسی یا دکھ کم نہیں ہو گا لیکن پھر بھی پریشان حال شخص سے ہمدردی ضرور کریں۔

لفظ اثر رکھتے ہیں۔ نا امید اور مایوس شخص کو ہمت، حوصلہ اور نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ ہمیشہ اچھے اور مناسب الفاظ کا انتخاب کریں۔ دنیا میں گم نہ ہوجائیں، وقت ضائع نہ کریں، دنیا میں ہر دن ایسے گزاریں جیسے یہ آخری دن ہو۔ زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور انداز میں جیے۔ زندگی کے اہداف مقرر کریں، آدھی مشکلات خود ختم ہوجائیں گیں بس شرط یہ ہے کہ جو منصوبہ بنائیں وہ موثر ہونا چاہیے۔ مثبت سوچیں اور مثبت باتیں کریں۔ تمام۔ مشکلات کا مثبت پہلو تلاش کریں۔ سحر خیزی بروقت منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لیے بہترین تجویز ہے۔ ارشاد الہی ہے کہ اگر تم سحر خیز بن جاوٴں تو میں تمہارے کاموں میں برکت ڈال دوں گا۔

انسان کو اپنے دکھ سیلیبریٹ کرنے چاہیے، جیسے کہ منہ پر ہنسی سجا کر، اچھے سے بال بنا کر، اپنے پسندیدہ کپڑے اور رنگ کا انتخاب کر کے، رات کے نصف پہر اپنے لیے چائے کا مگ بنا کر۔ کوئی دیکھے تو بکھرا ہوا نہ سمجھے۔ بلاوجہ کی ہمدردی نہ جتائے۔ ان چیزوں کی لسٹ بنائیں جن کو پیسوں سے نہیں خریدا جاسکتا۔ پھر ان کی قدر کرنا شروع کر دیں زندگی پرسکون ہو جائے گی۔ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں الجھنے سے زیادہ بہتر ہے کہ ایسا کچھ نہ کریں جوان کے لیے باعث اذیت ہو۔

اپنے لفظوں کے بارے میں محتاط ہوجائیں، انہیں ادا کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ کسی کے وجود کو سمیٹیں گے یا کرچی کرچی بکھیر دیں گے۔ مسکرائیے، آسانیاں بانٹیں، ہر دن ایسے گزارے جیسے یہ آخری دن ہو۔ اپنے خوابوں کو تعبیر بخش دیں۔ جیے اور جینے دیں کے اصول کو اپنائیں۔ محبتیں بانٹیں اور بھرپور انداز میں زندگی کو جیے کیونکہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments