سعودی عرب: اب مذہبی پولیس ‘مطوعہ’ کا کیا ہو گا؟


سعودی عرب کی ڈنڈابردار مذہبی پولیس مطوّعہ ایک وقت شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں پر کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ لیکن ملک کے بدلتے ماحول میں مطوّعہ کا مستقبل غیر واضح نظر آرہا ہے۔

سعودی عرب کے عملاً حکمران ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے حالیہ برسوں کے دوران متعدد سماجی اصلاحات نافذ کیے جانے کے بعد ایک زمانے میں دہشت کی علامت سمجھی جانے والی مذہبی پولیس مطوّعہ اب بدلتے ہوئے سماجی حالات کے سامنے خود کو بے بس محسوس کررہی ہے۔

فیصل کے فرضی نام کے ساتھ ایک سابق سعودی پولیس افسر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،”میں جو کچھ بھی روکنا چاہتا ہوں، اس کی اجازت نہیں، اس لیے میں نے نوکری چھوڑ دی۔”

سعودی عرب کے کمیشن برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکرجسے عرف عام میں مطوّعہ کہا جاتا ہے، سخت اسلامی اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے کے لیے ذمہ دار تھی۔ یہ دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اس کا کام شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں پر سخت نگاہ رکھنا، کسی کو بھی صنف مخالف کے ساتھ گفتگو کرنے سے روکنا اور نماز کے وقت لوگوں کو زبردستی نماز ادا کرنے کے لیے مجبور کرنا تھا۔

 لیکن سن 2016 میں جب سے ملک نے اپنے سخت مذہبی ضابطوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں، مذہبی پولیس مطوّعہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں پچھلے چند برسوں میں خواتین کے حقوق کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں انہیں گاڑی چلانے، کھیلوں کی تقاریب اور کانسرٹس میں مردوں کے ساتھ شرکت کرنے، اور مرد سرپرست کی منظوری کے بغیر بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت شامل ہیں۔

سینتیس سالہ فیصل کے مطابق مطوّعہ کے تمام اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں اور اس وقت ان کا کوئی واضح کردار نہیں رہ گیا ہے۔

فیصل نے طنزیہ لہجے میں کہا،”پہلے کمیشن برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر سب سے اہم اتھارٹی تھی اور آج ملک میں جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی سب سے اہم بن گئی ہے۔”

فیصل کا اشارہ اس حکومتی ایجنسی کی جانب تھا جو ملک میں تفریحی تقاریب منعقد کرواتی ہے۔ مثلا ً گزشتہ برس اس ایجنسی نے کینیڈیائی پاپ اسٹار جسٹن بایبر کا کنسرٹ منعقد کروایا تھا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی نے ملک میں سعودی فارمولہ ون گراں پری کار ریس اور چار روزہ الیکٹرانک میوزک فیسٹیول بھی منعقد کروائے۔

مطوّعہ کے اہلکار، عشروں تک مناسب انداز میں عبایا نہ پہننے پر عورتوں کے خلاف کارروائی کرتے رہے۔ لیکن جب ملک میں نئی اصلاحا ت نافذ ہوئیں تو عبایا سے متعلق قوانین کو بھی نرم کردیا گیا اور اب عوامی مقامات پر بھی مردوں اور عورتوں کا ملنا جلنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے اوقات میں کاروباری مقامات کو زبردستی بند کرنے کا رواج بھی ختم ہوچکا ہے۔

مطوّعہ کے ایک اور سابق اہلکار نے ترکی کے فرضی نام سے اے ایف پی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جس ادارے کے ساتھ انہوں نے ایک عشرے تک کام کیا “اب اس کا وجود نہیں رہ گیا ہے۔”

ان کا کہنا تھا جو افسر اب بھی اس ادارے میں کام کررہے ہیں وہ “صرف تنخواہ پانے کے لیے” ایسا کر رہے ہیں۔ ترکی نے مزید کہا کہ اب انہیں ان رویو ں کو جنہیں نامناسب سمجھاجاتا ہے کو تبدیل کرنے یا اس میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

سعودی عرب میں سن 2017 سے عملاً حکمرانی کرنے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود کو “اعتدال پسند اسلام” کے چیمپئن کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے۔

مصنف سعود الکاتب کا کہنا ہے کہ مطوّعہ کے اختیارات میں تخفیف کی وجہ سے ان میں ایک واضح اور زبردست تبدیلی آئی ہے۔

 دارالحکومت ریاض کے ایک سینٹر میں بہت سے عام سعودی شہریوں کی طرح بیٹھ کر سگریٹ پینے والی خاتون لمعہ نے کہا کہ انہیں مذہبی پولیس کے اہلکاروں کے بارے میں کوئی افسوس نہیں ہے۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے لمعہ نے ہنستے ہوئے کہا،” چند برس پہلے میں یہ گمان بھی نہیں کرسکتی تھی کہ میں سڑک پر کھڑے ہوکر سگریٹ پی سکتی ہوں۔ وہ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے تھے۔”

مطوّعہ کے اہلکار اب سڑکوں پر گشت کرنے کے بجائے اپنے آفس میں کرسیوں پر بیٹھ کر اخلاقیات اور صحت کو بہتر بنانے کے طریقوں کے حوالے سے بیداری مہم چلانے کے طریقوں پر غورو خوض کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

سعودی مذہبی پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذہبی پولیس اب “الگ تھلگ ” ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

مطوّعہ کے رہنما عبدالرحمان السند مذہبی پولیس میں اصلاحات کے حامی ہیں۔ انہوں نے مقامی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن خواتین کو بھی ملازمت دے گا۔

عبدالرحمان سند نے اعتراف کیا کہ مطوّعہ کے بعض اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ”کسی تجربہ یا صلاحیت کے بغیر کارروائیاں کیں۔ جس کی وجہ سے اس کے امیج پر منفی اثر پڑا۔”

سعودی امور کی ماہر فرانس میں پویونیورسٹی کی پروفیسر اسٹیفنی لاکروئکس کا تاہم خیال ہے کہ سعودی حکام مطوّعہ کو پوری طرح ختم نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق مذہبی پولیس کا تعلق ملک کی سعودی شناخت سے ہے جس پر بہت سے قدامت پسند سعودی شہری یقین رکھتے ہیں۔

سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان کے اصلاحی اقدامات سے اگرچہ بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن بہت کچھ اب بھی پہلے ہی جیسا ہے۔

مذہبی پولیس کے اختیارات کم ہوگئے ہیں لیکن دوسری طرف حکومت سے اختلافات رکھنے والوں، دانشوروں اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

 ج ا/ ب ج (اے ایف پی)

بشکریہ: DW.COM


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments