کیا پرویز خٹک پارٹی سے بغاوت کرے گا؟


تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے درمیان مبینہ تلخ کلامی کے بعد سے کچھ سیاسی اور صحافتی حلقوں کا دعوی یا تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف میں سب اچھا نہیں اور کسی بھی وقت اس کے صفوں سے بعض ارکان پرویز خٹک کی قیادت میں پرواز کر سکتے ہیں اور یوں عمران حکومت کا دھڑم تختہ ہونے والا ہے۔

اگرچہ چند صحافی حضرات گزشتہ دو سال سے حکومت کے چلتا ہونے کی بات یا پیشن گوئیاں کرتے آ رہے ہیں مگر ابھی تک یہ ہوائی ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی پیشن گوئیاں شاید ناقص معلومات، ذاتی خواہش پر مبنی یا لہو گرمانے اور دلوں کو بہلانے کی غرض سے ہوں۔ بہرحال وجوہات جو بھی ہوں اب اس قسم کی پیشن گوئیوں کو زیادہ تر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔

اس لیے عمران خان اور پرویز خٹک کے درمیان مبینہ تلخ کلامی کے پس منظر میں پرویز خٹک کا عنقریب کسی وقت تحریک انصاف سے ممکنہ بغاوت یا اڑان کی بات بھی قیاس آرائی سی ہے۔

یہ درست ہے کہ پرویز خٹک کو پارٹی قیادت کے رویے کے بارے میں تحفظات اور گلے شکوے ضرور ہوں گے۔ جس کا ایک بڑا سبب 2018 کے انتحابات کے بعد اس کو خیبر پختونخوا کی سیاست سے الگ کرنے کے لیے وزرات اعلی کے بجائے مرکز میں ایسی وزرات ( دفاع ) سونپنا ہے جہاں وہ باس کے بجائے ایک ماتحت کی حیثیت رکھتا ہے۔ پرویز خٹک اپنے ساتھ اس طرز عمل کے محرکات اور مضمرات کو بھی خوب سمجھتا ہو گا مگر ایک تجربہ کار اور حقیقت پسند سیاست دان ہونے کے ناتے وہ حالات اور وقت کے مطابق اپنے نقصان اور فائدے کی بھی بہتر پرکھ کر سکتا ہے۔ اس لیے پارٹی قیادت کے فیصلے اور طرزعمل پر ناخوش ہونے باوجود مصلحت سے کام لینا مفید سمجھتا ہے

تاہم اس کے ساتھ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وقت اور حالات کے ساتھ اگر پرویز خٹک کو یہ یقین ہو گیا کہ پی ٹی آئی میں اس کا سیاسی مستقبل روشن نہیں بلکہ وقعت کم ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں پارٹی میں رہنا اس کے لیے مشکل ہو گا اور اس سے نکلنے کا فیصلہ حالات کو دیکھ کر مناسب وقت پر ایسے انداز میں کر سکتا ہے جس کو شاید اس کی بغاوت بھی قرار دیا جائے۔ لیکن فی الحال اس کا فوری امکان بوجوہ قدرے کم لگتا ہے۔

بالفرض اگر پرویز خٹک واقعی پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے کی سوچ میں ہے تو اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل بھی اس کے ذہن میں ہو گا۔ جس میں ایک تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی پارٹی کو جائن کرنا چاہے گا مستقبل میں جس کو اقتدار ملنے کا امکان زیادہ ہو اور دوسرا یہ کہ اس میں اس کو اقتدار کی صورت میں بہتر پوزیشن ملنے کی توقع اور ضمانت ہو۔

یہ بہتر پوزیشن اس کے لیے خیبر پختونخوا کی وزرات اعلی ہو یا پھر مرکز میں کو کوئی موثر وزرات ہو سکتی ہے اس سے کم حیثیت لینے پر شاید وہ تیار نہ ہوں۔

پرویز خٹک کی سیاسی دلچسپی کا اصل میدان چونکہ خیبر پختونخوا ہے اس لیے اس سلسلے میں وہ یہاں کے سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھے گا۔

تحریک انصاف چھوڑ نے کی صورت میں کسی دوسری پارٹی جائن کرنے کے لیے خٹک صاحب کے پاس ایک آپشن تو اس کی پرانی جماعت ( پیپلز پارٹی) کا ہو سکتا ہے۔ مگر کئی دوسری وجوہات کے علاوہ اس کا متحرک ہو کر صوبے میں کامیاب پارٹی کی حیثیت میں آنے کے کم امکانات ہونے کے باعث شاید وہ اس آپشن سے گریزاں رہے۔

اسی طرح اے این پی میں شمولیت بھی مفید نہیں سمجھتا ہو گا

ایک تجربہ کار سیاست دان کی حیثیت سے پرویز خٹک کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ خیبر پختونخوا کے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو ممکنہ شکست دینے کی پوزیشن میں اگر کوئی جماعت ہو سکتی ہے تو وہ جماعت علما اسلام ہو گی۔ مگر پرویز خٹک کا اس جماعت میں بھی شامل ہونا یا مناسب مقام پانا بوجوہ ممکن نہیں لگتا ہے اس لیے صوبے کی کسی اپوزیشن جماعت کے پلیٹ فارم سے وزرات اعلی کے حصول کا امکان تو کم ہے۔

ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتحابات کے لیے پرویز خٹک اپنا ہم خیال گروپ تشکیل دے۔ اور اتنی تعداد میں اس کے نامزد امیدوار کو کامیاب کرائے کہ صوبائی حکومت بنانے میں اہمیت اور برتری اس کے گروپ کو حاصل ہو۔ پھر ایسی صورت میں اس بات کا کافی امکان ہو سکتا ہے کہ بعض دوسری جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے اس کے وزیر اعلی بننے کی راہ نکل آئے۔

تاہم اس کا بنیادی دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ ایسا گروپ بنانے اور انتحابات میں اس کو جتوانے میں وہ کتنا کامیاب ہو سکتا ہے

جہاں تک وفاقی سطح پر اہم منصب ( وزرات داخلہ وغیرہ ) کے حصول کی بات ہے تو اس کا امکان نسبتاً زیادہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے اس کو یا تو نون لیگ جائن کرنا ہو گا ( کیونکہ موجود حالات میں پی ٹی آئی کی جگہ مرکز میں متبادل جماعت نون لیگ تصور کی جاتی ہے ) اور اس کے پلیٹ فارم سے آئندہ الیکشن لڑ کر منتخب ہوں۔ اور اس کے ساتھ صوبے میں نون لیگ کو سیٹیں دلوانے میں بھی اہم کردار ادا کر کے اپنی سیاسی اہمیت ثابت کرے۔

یا پھر انتحابات میں اپنے ( ممکنہ ) ہم خیال گروپ کے موثر کامیابی کا یقین ہو اور دوسرا یہ کہ انتحابات کے ایسے نتائج نکلنے کا امکان ہو جس میں نون لیگ کا اکثریتی پارٹی تو ہو مگر حکومت بنانے کے لیے اس کے گروپ کا تعاون ناگزیر ہو اور اس کو اس کے شرائط پر حکومت میں جگہ دینے پر مجبور ہو تو ایسے میں پرویز خٹک پی ٹی آئی میں اپنا مطلوبہ مقام نہ پا سکنے کے باعث شاید اس سے بغاوت کی ٹھان لے۔

تاہم اگر حالات ایسے ہوں جس میں اس کو متذکرہ امکانات کی گنجائش کم نظر نہ آئے یا ملکی سیاست کسی غیر معمولی ہلچل کا شکار نہ ہو تو بغاوت کے بجائے جہاں دیدہ اور حقیقت پسند پرویز خٹک کی کوشش شاید یہ رہے کہ اپنی پارٹی قیادت کے حوالے سے اپنے موجودہ تحفظات اور گلے شکووں کے خاتمے کی راہ نکال لے اور یوں پی ٹی آئی ہی میں رہ کر آئندہ انتحابات میں اس کی کامیابی کے لیے اس انتظام اور یقین دہانی کے ساتھ سرگرم رہے کہ وزارت اعلی کا منصب اس کو دیا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments