”حسرت تعمیر“ میری نظر میں


قاری کو جو چیز زیر مطالعہ فن پارے کی سب سے پہلے متاثر کرتی ہے وہ اس کا عنوان ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فن پارے کا عنوان اچھوتا اور جاذبیت کا حامل ہو تاکہ قاری کی توجہ حاصل کر سکے۔ اگر فن پارے کا عنوان آفاقی شعر سے منتخب کیا گیا ہو تو سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے۔

حسرت تعمیر ”ایک ایسا ناول ہے جس کا عنوان اچھوتا اور منفرد ہے۔ اس کے عنوان کا انتخاب اعجاز روشن نے بڑے سلیقے سے کیا ہے اور پھر اسے پوری کہانی میں خوب نبھایا ہے۔ جو ان کی فن کے ساتھ گہری وابستگی اور مخلصانہ جڑت کو ظاہر کرتا ہے۔

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حقیقی فن کار وہ ہے جو زندگی کو ایسے دکھائے جیسی وہ ہے لیکن میرے خیال سے حقیقی فن کار وہ ہے جو زندگی کے انتشار اور بے ربطی کو منظم اور مربوط کر کے دکھائے تاکہ قاری کی توجہ نہ بٹے۔ ”حسرت تعمیر“ متوسط طبقے کی حسرتوں کی کہانی ہے۔ جس میں اعجاز روشن نے حسرتوں کے پیچھے بھاگتی بے ڈھنگی اور بے ترتیب زندگی کو اپنے فن کے چابک سے ترتیب دیا ہے۔ جس سے حسرت تعمیر کا توازن آغاز تا انجام برقرار رہتا ہے اور وہ زینہ بہ زینہ اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ اعجاز روشن نے حسرت تعمیر کی کہانی میں ممکن حد تک چھلانگیں لگانے سے گریز کیا ہے۔ جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اعجاز روشن نے فن کا ایک اچھا نمونہ تخلیق کیا ہے جو ناول کی تاریخ میں اپنا مقام بنا لے گا۔

”حسرت تعمیر“ کے پلاٹ کی تمام جزئیات مربوط ہیں۔ جس سے اس کا پلاٹ گتھا ہوا ہے۔ جو عالم پور گاوٴں سے کہانی کے واقعات کو سمیٹتا ہوا آہستہ آہستہ پھیلاتا گیا ہے۔ نقطہ عروج کو چھونے کے بعد قوس کی صورت میں اپنے ابتدائی نقطے سے ملا ہے جس سے حیاتیاتی دائرہ وجود میں آیا ہے۔ جو وقت کے چاک پر گھومتا ہے۔ جس سے بہت سے سوال جنم لیتے ہیں جو ”حسرت تعمیر“ کے مرکزی کردار فراز کی شخصیت کی گراوٹ کو سمجھنے میں بہت کار گر ثابت ہوتے ہیں۔

اعجاز روشن نے ”حسرت تعمیر“ کا آغاز بڑے انوکھے انداز سے کیا ہے۔ وہ فراز کے ذریعے ابا سلطان کے گھر داخل ہوتے ہیں اور فراز سے جڑے رشتوں کا تعارف فردا فردا کروانے کے ساتھ گھر کے ماحول کی متحرک مصوری پیش کرتے ہیں۔ اس مصوری پر ابا سلطان کے سخت رویے سے کچھ خراشیں پڑتی ہیں جنھیں اعجاز روشن ابا سلطان کے مزاج کو آ شکار کر کے پینٹ کر دیتے ہیں۔

ابا سلطان کے سخت رویے کی وجہ سے گھر پر خوف کی پرچھائی کا سایہ رہتا ہے۔ یہی سایہ فراز کی شخصیت کو مجروح کرنے کے ساتھ اس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ وہ ساری عمر دوسروں کے متعین کردہ راستوں پر بھٹکتا رہتا ہے اور بالآخر ناکام ہو جاتا ہے۔

دراصل فراز متوسط طبقے کے نو جوان کا نمائندہ ہے۔ جو بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لیے ساری زندگی مشقت کے لیے وقف کر کے مادے کے سراب کی پیچھے دوڑتا رہتا ہے جو چھلاوے کی طرح کبھی گرفت میں نہیں آتا۔ اس نوجوان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس خواب کی تعبیر چاہتا ہے جو وہ کھلی آنکھ سے دن کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ وہ اس خواب کی تعبیر کے لیے سب کچھ لوٹتا چلا جاتا ہے۔ اسے اس بات کا قطعاً خیال نہیں آتا کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے پیچھے اپنی پہچان کو بھی داوٴ پر لگا بیٹھا ہے۔ بالآخر اس کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔

اعجاز روشن نے ”حسرت تعمیر“ کی تخلیق کے دوران انسانی فطرت اور زندگی کے امکانات کو دریافت کیا ہے۔ انھوں نے عصر حاضر سماجی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور اخلاقی کھوکھلے پن کو عیاں کیا ہے۔ لیکن انھوں نے حسرت تعمیر کی تخلیق کے دوران مبلغانہ انداز نہیں اپنایا بلکہ فنکارانہ انداز کو اپنا مطمح نظر بیان کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ انھوں نے حسرت تعمیر میں کہیں پر بھی اپنے نظریات اپنی زبانی ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔

حسرت تعمیر ”میں یوں تو بہت سے کردار ہیں لیکن جن کرداروں کی وجہ سے کہانی میں جان آتی ہے، اس کی ہئیت اور توازن قائم ہوتا ہے وہ فراز اور شمسہ کے کردار ہیں۔ شمسہ فراز کی بیوی ہے جو بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے فراز سے بے وفائی کرتی ہے۔ لیکن اس کی سزا شمسہ کو ملنے کی بجائے فراز کو گھر ٹوٹنے کی صورت میں ملتی ہے۔ اعجاز روشن کا یہ انداز انوکھا سا لگتا ہے لیکن پلاٹ کی بنت میں جو امکانات سموئے گئے ہیں ان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ انداز فطری معلوم ہوتا ہے۔ حسرت تعمیر کا انجام بھی غور طلب ہے اعجاز روشن نے یہاں پر کہانی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ قاری کے ذہن میں کچھ سوالوں کو جنم دینے کے بعد کہانی کو زندگی کی طرح جاری دکھایا ہے۔ اعجاز روشن نے کہانی کے اختتام پر فلیش بیک کی تیکنیک کو بھی بڑی عمدگی سے برتا ہے۔

اعجاز روشن نے حسرت تعمیر میں اپنے فن پر اپنی مقصدیت کا لیبل نہیں لگایا اور نہ ہی کسی قسم کا مصنوعی پن تخلیق کیا ہے۔ عنوان، کہانی، کردار، مکالمہ وغیرہ اوریجنل معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے کرداروں کے مکالمے تخلیق کرتے وقت ان کے مزاج، پیشے اور ماحول کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ انھوں نے جو مکالمہ جس کردار سے فطری مناسبت رکھتا تھا اسی سے ادا کروایا ہے۔ اعجاز روشن نے جنس کے بیان میں بھی علوی اور سفلی دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھا ہے۔

حسرت تعمیر ”کو عصریت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسے عصری سماج کی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ اعجاز روشن نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد جس طرح سے استعماری طاقتیں مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کرنے لگی تھیں اس کی طرف بڑی فنی مہارت سے اشارہ کیا ہے۔

اعجاز روشن نے جس انداز سے معاشرے پر مغربی تہذیب اور ملٹی نیشنلائز کمپنیوں کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اثر انداز ہوتے دکھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments