صدارتی نظام حکومت اور پاکستان


پاکستان میں وقتاً فوقتاً ملکی صدارتی نظام کے بارے میں بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اس نظام کے الف بے کا بھی پتہ نہیں۔ صدارتی نظام حکومت وہ نظام ہے جس میں صدر بیک وقت سربراہ حکومت بھی ہو اور سربراہ ریاست بھی ہو۔ صدر کا انتخاب بالواسطہ یا بلا واسطہ ہو۔ دنیا میں اس وقت مختلف اقسام کے صدارتی نظام رائج ہے۔ کہیں صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے تو کہیں الیکٹورل کالج کے ذریعے، کہیں صدارتی نظام حکومت کے ساتھ رسمی پارلیمان بھی موجود ہوتی ہے۔

میری رائے میں صدارتی نظام ایک آئینی بادشاہت ہوتی ہے جہاں صدر کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صدارتی نظام کے حوالے سے ہونے والی مہم کے پیچھے کون ہے؟ یہ بات بھی معلوم نہیں۔ کیوں کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام حکومت کے خواہشمند ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں صدارتی نظام حکومت کا ذکر تک نہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی آج تک اس کا اظہار نہیں کیا۔ اور نہ ہی حکومت کو ایوان میں مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔

وہ قوتیں اس کے پیچھے ہیں۔ جو ملک میں جمہوریت نہیں چاہتی ہیں۔ وقتاً فوقتاً یہ افواہیں اڑتی ہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے پیڈ صحافی اس مہم کو ہوا دیتے ہیں۔ لیکن عوام کی اکثریت کی تائید و حمایت حاصل نہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر تو اسلامی صدارتی نظام کے حوالے سے ایک باقاعدہ مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔ تاکہ مذہبی جذبات کو استعمال کر کے ملک میں صدارتی نظام حکومت کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ کچھ عناصر ریفرنڈم کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ ریفرنڈم تو کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ریفرنڈم کی بنیاد پر قانون سازی نہیں ہو سکتی ہے۔ نظام حکومت میں تبدیلی کا سادہ سادہ طریقہ دونوں ایوانوں میں اکثریت سے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ اس کی تشکیل سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر ان سے مشاورت کی جائے۔ خصوصاً علاقائی جماعتوں کی آراء شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ ایوب خان کے صدارتی نظام اور ون یونٹ سسٹم کی وجہ سے ہم آدھے سے زیادہ یعنی 56 فیصد ملک گنوا چکے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے۔ کہ میڈیا پر جو مہم جوئی ہو رہی ہے۔ اس پر آرمی جنرلوں کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہے۔ جو تشویش ناک بات ہے۔ کیوں کہ آرمی کا نظام حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ لہذا آئی ایس پی آر فوری طور پر اس مہم جوئی کے بارے میں قوم کو حقیقت بتائیں۔ اس تاثر کو زائل کریں کہ آرمی ملک میں صدارتی نظام کا خواہاں ہے۔ پاکستان جیسے کمزور ممالک پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام جیسے تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتے ہے۔ کیوں کہ یہاں مختلف علاقوں میں علاقائی اور نسلی بنیادوں پر تعصب پایا جاتا ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمانی نظام کو ملکی وحدت کی خاطر محفوظ کیا جائے۔ قومی/صوبائی اور لوکل انتخابات کا تسلسل ہو۔ ملکی تاریخ کا زیادہ تر وقت غیر قانونی نظاموں کی نظر ہوا۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو بچایا جائے۔ اور نظام کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments