بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز : قسط نمبر 13



اوسلو معاہدہ

اب تک ہونے والے معاہدوں میں اوسلو معاہدے کو ایک بڑا اور اہم ترین معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں، پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن کے درمیان اوسلو میں 1993 میں کیا گیا۔ اسی وجہ سے اسے اوسلو معاہدہ کہا جاتا ہے۔

اس معاہدے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ایل او کے صدر جناب یاسر عرفات نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا اور شدت پسندوں کی کارروائیوں کی مذمت کی اور یہ یقین دہانی کروائی کہ فلسطینی آئندہ کوئی بھی ایسی کارروائی نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں اسرائیل سے پی ایل او کو فلسطینیوں کے ایک نمائندے کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ یاد رہے اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات بھی قائم کیے جائیں گے۔

بڑی سطح پر مذاکرات کے بعد دونوں طرف کے مختلف نمائندوں کے درمیان ڈیکلئیریشن آف پرنسپل جاری کیا گیا جسے عام طور پر ڈی او پی بھی کہا جاتا ہے۔

اس پر کتنا عمل ہوا اور اس کے کیا اثرات ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے۔ جس طریقے سے اس وقت فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی کیفیت تھی وہ آج بھی اسی طرح ہی ہے جس سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس معاہدے سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 2000 میں جو بل کلنٹن کی سربراہی میں کیا گیا اسے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اب تک کیے جانے والے معاہدوں میں سے سب سے اہم معاہدہ مانا جاتا ہے۔

معاہدے میں فلسطین کے صدر یاسر عرفات اور اسرائیل کے پرائم منسٹرEhud Barak شریک ہوئے۔ اس ملاقات کا اہتمام بھی کلنٹن نے ہی کیا۔ اس بار یہ طے کیا گیا کہ ویسٹ بنک کا 66 فیصد حصہ فلسطین کو ملے گا اور 17 فیصد اسرائیل کا حصہ ہو گا، وہ 17 فیصد اسرائیل کا حصہ تو نہیں ہو گا لیکن اس پر اسرائیل کا کنٹرول ضرور ہو گا۔ اسی طرح بہت سارے قدرتی وسائل کی تقسیم بھی کی گئی۔

اہم بات یہ تھی مشرقی یروشلم کے بارے میں کئی ایسی شرائط پیش کی گئیں جو فلسطین کے لوگوں کو قبول نہ تھیں۔ شروع میں ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا جس میں بعد ازاں کئی ترامیم کی گئیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ غزہ اور ویسٹ بنک کا 95 فیصد حصہ فلسطین کو دینے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ فلسطین یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے پر تیار ہو۔

ایک طویل بحث و مباحثہ کے بعد ایک معاہدہ تو ہوا لیکن وہ بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد بھی بے شمار معاہدے ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی خاطر خواہ کامیاب نہ ہوا۔

جارج بش اور اسرائیل، فلسطین مذاکرات

2002 میں جارج بش نے مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔ اس نے اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون اور صدر محمود عباس کوایک میز پر بٹھایا۔ اس معاہدے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اصل مسئلے کو ایک طرف رکھا جائے اور جنگی کیفیت میں کمی لائی جائے۔ فلسطینی عوام کو پابند کیا جائے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح سے جنگ بندی کا منصوبہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو بھی یہ کہا گیا کہ وہ بھی اپنی کارروائیاں بند کرے گا۔ یہ معاہدہ اصل مسئلے کو حل کرنے کے لیے جنگی صورتحال کو نارمل کرنے کی ایک کوشش تھی جو بظاہر کامیاب نہ ہوئی۔

اسرائیل فلسطین براہ راست مذاکرات

2007 میں ایک بار پھر اسرائیلی پرائم منسٹر Ehud Olmert اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان 36 مرتبہ مذاکرات ہوئے۔ یہ بہت ہی طویل مذاکرات تھے۔ ان مذاکرات کا دورانیہ دو سال پر مشتمل تھا۔

اتنی دفعہ مذاکرات ہونے سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مذاکرات کرنے والے مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور دوسری یہ کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نظر نہیں آتا۔ اس دوران حماس کا غزہ پر قبضہ ہو گیا اور امن کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ اور ایک دفعہ پھر 2008 میں جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

باراک اوباما اور فلسطین

باراک اوباما نے بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے فلسطین اور اسرائیل کی قیادت کے درمیان براہ راست مذاکرات کا اہتمام کیا۔

اس میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ فلسطین ہر حال میں یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ قبول کر لے۔ اس سلسلے میں اوباما نے میں دو سال تک کوشش کی۔ ہیلری کلنٹن بھی کافی متحرک رہیں۔ ان سب کی یہ کوشش تھی کہ کسی طریقے سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔

ایک موقع پر محمود عباس نے کہا کہ وہ کسی نہ کسی طرح زمین کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔ یہ سب باتیں ہونے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ باراک اوباما بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ اس طرح مذاکرات کا یہ سلسلہ 2013 تک جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگ بھی جاری رہی اور اسرائیل اپنی بستیوں میں اضافہ کرتا رہا۔

محمود عباس کا امن معاہدہ اور ٹرمپ کا اعلان یروشلم

فلسطینی صدر محمود عباس نے 2014 میں ایک امن معاہدہ پیش کیا۔ جس میں اس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ اسرائیل 1967 سے پہلے کی سرحدوں کا احترام کرے اور یروشلم مکمل طور پر فلسطین کے حوالے کرے۔ یہ تجویز امریکہ کی طرف سے مسترد کردی گئی۔

اس کے بعد صدر ٹرمپ نے بھی اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب اس نے یہ اعلان کیا کہ یروشلم، اسرائیل کا صدر مقام ہو گا تو اس سے اب تک ہونے والے تمام معاہدوں پر پانی پھر گیا اور اہل فلسطین کو یہ اندازہ ہو گیا کہ امریکہ کسی بھی طرح سے اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتا یوں اب تک کی گئی تمام تر کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ 73 سال پہلے شروع ہونے والی جنگ اب بھی جاری ہے۔

اب تک میں نے جو دیکھا اس سے میں یہ جان سکا ہوں کہ جو بھی معاہدے کیے گئے ان کی سربراہی امریکہ ہی کے پاس تھی۔ امریکہ ہی اسرائیل کا اصل پشت پناہ ہے۔ اس طرح ہر بار امریکہ نے اسرائیل کی ہی حمایت کی۔ اسی لیے ان معاہدوں میں ہمیں کہیں انصاف ہوتا نظر نہیں آیا۔

اگر کبھی فلسطینی لیڈرشپ نے کسی معاہدے کو تسلیم بھی کیا تو فلسطینی عوام نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور جب بھی کسی بھی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی تو بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ اس لیے آج کی تاریخ تک یہ کہا جا سکتا ہے کوئی بھی معاہدہ کامیاب نہیں ہوا۔ ایک طرف معاہدے ناکام ہوئے اور دوسری طرف یہودیوں نے اپنی آبادی میں بھی اضافہ جاری رکھا اور مزید علاقوں میں اپنی بستیاں بھی بساتے رہے۔

اب حالت یہ ہے کہ وہ یہودی جو کبھی تین فیصد تھے اب وہ اس پورے خطے کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد ہیں اور اس علاقے کے ستر فیصد علاقے پر قابض ہیں۔

او آئی سی اور فلسطین، اسرائیل تنازعہ

مسلمان ممالک نے 1969 میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے Organisation of Islamic Cooperation (او آئی سی) کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس وقت اس تنظیم کے 57 ممبر ہیں اور ان ممبر ممالک میں بسنے والے لوگوں کی تعداد دو ارب کے قریب ہے۔ ان 57 ممالک میں 49 ممالک ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

اس تنظیم کا پہلا اجلاس 1969 میں مراکش کے شہر رباط میں ہوا۔ ایک قرارداد کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ یہ تنظیم مسلمانوں کے باہمی مسائل کو بھی حل کرنے میں مدد دے گی اور ان کے درمیان تعاون میں اضافے کی کوشش بھی کرے گی۔

کہتے ہیں کہ اس تنظیم کی بنیاد فلسطین کے مفتی اعظم امیر الحسینی کی درخواست پر رکھی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ اسرائیل، فلسطین میں کر رہا ہے اسے روکنے کا واحد حل مسلمانوں کا اتحاد ہے۔ میں اس وقت اس تنظیم کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتا بلکہ آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس تنظیم نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعے کو حل کروانے میں کیا کردار ادا کیا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی نے فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر ہمیشہ ہی سنجیدگی سے کام کیا ہے لیکن یاد رہے یہ تنظیم کوئی فوجی تنظیم نہیں ہے۔ یہ دنیا کے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی اٹھاتی ہے اور دیرپا حل کے لیے کوشش بھی کرتی ہے۔ او آئی سی نے اس کام کے لیے بے شمار کانفرنسز کا اہتمام بھی کیا۔ لیکن او آئی سی کی آواز کو کسی نے اہمیت نہیں دی۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم فلسطین، اسرائیل کے مسئلے کو حل کروانے میں زیادہ اہم کردار ادا نہیں کر سکی۔

جنگ رمضان: اپریل۔ مئی 2021

ابھی حال ہی میں ماہ رمضان میں ایک گیارہ روزہ جنگ لڑی گئی۔ ایک طرف اسرائیل کے میزائل تھے اور دوسری طرف غزہ کی پٹی سے دیسی ساخت کے راکٹ۔ اس جنگ میں شیخ جراح کے علاقے کا ذکر بار بار سامنے آیا۔ اس علاقے کی تاریخ کا جاننا اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ یہ علم ہو سکے کہ جنگ رمضان (یہ نام میں نے دیا ہے ) کیوں شروع ہوئی اور اس کی اصل وجہ کیا تھی۔

یاد رہے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کبھی بھی امن نہیں رہا۔ یہ دونوں ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں اور کوئی معمولی واقعہ بھی کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

یہودیوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر شیخ جراح (جو کہ ایک قدیم علاقہ ) ان کی ملکیت ہے۔ اس جگہ کا جھگڑا پچھلے ستر سال سے چلا آ رہا ہے۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے اور اس میں سو کے قریب فلسطینی خاندان آباد ہیں۔ جگہ کی ملکیت کے لیے یہودیوں نے اسرائیلی عدالت میں ایک کیس بھی کر رکھا تھا۔ فلسطینیوں کو یہ ڈر تھا کہ عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے گی اور اس طرح ان کے اس علاقے سے بے دخل ہونے کا خطرہ موجود تھا جبکہ یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے 1870 میں (سلطنت عثمانیہ کے دور میں ) عربوں سے اس جگہ کو خریدا تھا لیکن فلسطینی ان کے اس دعوے کو نہیں مانتے۔

پھر ایک وقت آیا کہ یہ علاقہ اردن کے کنٹرول میں چلا گیا۔ چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور وہ قانون بنایا جس کے تحت یہ علاقہ یہودیوں کو مل سکتا تھا۔ اس دوران بہت سے مذاکرات بھی ہوئے۔ انٹرنیشنل فورسز نے بھی اپنا کام کیا لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔ اسی خوف نے ان لوگوں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا کر دیا۔ رمضان میں جب مسلمان مسجد القدس میں نماز کے لیے اکٹھے ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے ان پر تشدد کیا اور مسجد کو بند کر دیا۔

اس طرح یہ واقعہ ایک بڑی جنگ کی بنیاد بن گیا۔

اس دوران جب مسلمان شب قدر منا رہے تھے تو اسرائیل کا بھی کوئی قومی دن آ گیا۔ اب کی بار یہ لڑائی یروشلم میں بسنے والے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہونا شروع ہو گئی۔ یاد رہے مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہے جب کہ اس علاقے میں مسلمان بھی آباد ہیں۔

مختصر یہ کہ پھر ایک وقت آیا جب ویسٹ بنک ( مغربی یروشلم ) اور غزہ کی پٹی میں مسلمانوں نے ایک بہت بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کر دیا۔ اسرائیل کے ان علاقوں میں جہاں عرب مسلمان اور یہودی رہتے تھے، کے درمیان بھی ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

اس ساری صورتحال میں حماس نے اسرائیل کو الٹی میٹم دیا کہ وہ مسجد القدس سے اپنی پولیس ہٹا لے لیکن ایسا نہ ہوا اور پھر ایک دن آیا جب حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسانے شروع کر دیے۔ اسرائیل کے پاس دفاعی نظام موجود ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ راکٹ ان کی زمین تک نہ پہنچ سکے لیکن پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ 30 فیصد راکٹ اسرائیل کے علاقے میں گرے۔ جس سے اسرائیل میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اسرائیل نے جوابی ہوائی حملے شروع کر دیے۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے ایک تیرہ منزلہ ٹاور کو ایک بم کے ذریعے تباہ کر دیا۔ وہ ایک کمرشل پلازہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہر اس عمارت کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے کوئی راکٹ فائر کیا جاتا تھا۔

یہ جنگ گیارہ دن تک جاری رہی اور پھر مختلف لوگوں کی کوشش سے جنگ بندی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ اسرائیل کی درخواست پر ہوا اور اس میں حماس کی شرائط کو تسلیم کیا گیا جبکہ اسرائیل کا موقف ہے کہ جنگ بندی کے لئے ان کی شرائط بھی تسلیم ہوئی ہیں۔

جنگ کے دوران اسرائیل کے 13 لوگ مارے گئے جبکہ دو سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اور دوسری جانب اڑھائی سو سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے۔ جن میں ساٹھ بچے اور چالیس عورتیں بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے بھی زائد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حماس نے چھ سو سے زائد راکٹ فائر کیے۔ حماس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے کئی بڑے کمانڈر بھی اس جنگ میں شہید ہوئے اور غزہ کی پٹی پر بہت سی سرکاری عمارتیں بھی تباہ ہوئیں۔ یہ ایک وقتی جنگ بندی ہے اور لگتا یہی ہے کہ جب تک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکلے گا، کسی نہ کسی صورت میں جنگ جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments