تاریخ انسانی کا جب عمیق گہرائی میں جائزہ لیا جائے تو ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ تاریخ کبھی غلطی معاف نہیں کرتی، میرے پچھلے کالم میں بزم کا ذکر تھا، جب کہ اس حصے میں المیہ پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے، تحقیق اور تاریخ کسی رو رعایت کی قائل نہیں ہوتی، حقائق گر تلخ بھی ہوں، قاری کو آگاہی دینا ضروری ہوتا ہے۔ میں نے پوری ایمانداری سے کوشش کی ہے کہ قارئین پر صورتحال جوں کی توں واضح ہو۔ سمندر کا سینہ چیرتا ہواء ایک جہاز رنگون کی طرف رواں دواں تھا، جس میں ایک عمر رسیدہ شخص پابند سلاسل تھا، اس بحری جہاز کا نام میکنن میکنزی تھا، اور قیدی شخص کوئی اور نہیں آخری مغل بادشاہ، تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر تھا جس کو انگریزوں نے جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد گرفتار کر لیا تھا اور اپنے اقتدار کے لئے خطرہ گردانتے ہوئے ملک بدر کر دیا تھا، ٹھہریے آپ کو تھوڑا سا پس منظر تو بتا لوں۔

جب جنگ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے تو مجاہدین نے بادشاہ کو درخواست کی کہ آپ ہماری قیادت کریں، ملکہ زینت محل نے بھی اصرار کیا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے اگر ہماری جان بھی قربان کرنی پڑی تو ہم دریغ نہیں کریں گے، بوڑھا بادشاہ اس ولولے سے آگے بڑھا کہ مجاہدین کی رگوں میں خون پارہ بن کر دوڑنے لگا۔ مجاہدین نے اس جرات سے انگریزی فوج پر دھاوا بولا کہ دہلی شہر انگریزوں کی لاشوں سے پٹ گیا۔ قریب تھا کہ انگریز افواج کے پاؤں اکھڑ جاتے کہ انگریز جو کہ بنیادی طور پر مکار اور چالاک واقع ہواء ہے، اس نے دغابازی اور مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے سکھوں اور لالچی گورکھوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان کا ایک لشکر جرار لے کر حملہ کر دیا، مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا، مگر جب اپنے ہم قوم غداری کے مرتکب ہوں تو کب تک دفاع کیا جا سکتا ہے۔

انگریزوں نے دلی پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ اپنی بیگم اور شہزادیوں کے ساتھ مقبرہ ہمایوں میں پناہ گزیں ہو گیا۔ انگریزی افواج نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا تھا، ایک آہ و بکاء کا عالم تھا، لاکھوں لوگ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے پڑے تھے، کتے لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے، کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا، نفسا نفسی کا عالم تھا، ہر کوئی اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں لگا ہواء تھا، بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر سولی پر لٹکایا جا رہا تھا، یا نیزوں میں پرویا جا رہا تھا۔

ظلم و بربریت کا وہ طوفان بلا خیز برپا تھا کہ بچے بوڑھے اور خواتین کی تمیز کیے بغیر مارا کاٹا جا رہا تھا اور شرفاء کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کا دل ان حالات پر اور اپنی رعایا کی بے بسی پر خون کے آنسو رو رہا تھا، ہڈسن نے غداروں کی مدد سے 21 ستمبر کو مقبرہ ہمایوں سے بادشاہ کو بیگم اور بچوں سمیت گرفتار کر لیا۔ بادشاہ کو لال قلعے میں قید و بند کی صعوبتیں دی جانی لگیں۔ بادشاہ کے تین شہزادوں کو گولی مار دی گئی، ہڈسن کے حکم پر شہزادوں کے سر کاٹ لئے گئے، سفاک ہڈسن نے شہزادوں کا گرم خون چلو میں بھر کر کسی خون آشام کی طرح پیا۔

پھر شہزادوں کے کٹے ہوئے سر خوان پوش سے ڈھک کر بادشاہ کے سامنے پیش کیے گئے کہ آپ کے لئے نذر پیش خدمت ہے، بوڑھے بادشاہ کی داڑھی آنسوؤں سے لبریز ہو گئی مگر جواب حوصلے سے دیا کہ وطن کے بیٹے تھے اور وطن پر قربان ہو گئے۔ بعد میں ان سروں کو دروازے پر لٹکا دیا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ ابھی اور آزمائشیں بھی بوڑھے بادشاہ کی منتظر تھیں۔ بادشاہ پر انگریز سرکار سے غداری اور فریب کاری کا مقدمہ چلایا گیا۔ غضب یہ کیا کہ جھوٹے مقدمے کو تقریباً 42 دن تک طول دیا گیا، روزانہ کی بنیاد پر عدالتی کارروائی چلائی جاتی اور بادشاہ کو محض خاطر ذلیل و خوار کرنے کے لئے ایک مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔

اتنی طویل عدالتی کارروائی کے بعد پہلے بادشاہ کو سزائے موت سنائی گئی جس کو بعد میں جلا وطنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ 50 سالہ بوڑھا بادشاہ لال قلعہ سے رنگون کو عازم سفر ہواء شاہی خاندان کے 35 مرد و زن ہمراہ سفر تھے۔ یہ جہاز 17 اکتوبر 1858 کو رنگون کے ساحل سے جا لگا، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا سربراہ تھا۔ وہ ساحل سمندر پر پہنچا، بادشاہ اور ہمراہوں کو وصول کیا، وصولی کی رسید لکھ کر دی، اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے قیدی سربراہ کو اپنے ہمراہ لے کر اپنی رہائش گاہ پہنچ گیا۔

بہادر شاہ ظفر میں اتنا وقار تھا کہ قیدی ہونے کے باوجود بھی بادشاہ تھا، اور نیلسن کا ضمیر گوارا نہیں کر رہا تھا کہ بوڑھے اور بیمار بادشاہ کو جیل میں پھنکوا دے۔ مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بادشاہ کو رکھا جاتا۔ رنگون کی تاریخ کا پہلا جلا وطن بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھا۔ کیپٹن نیلسن پریشان تھا کہ بادشاہ کو کہاں رکھا جائے۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ نے ایک دلچسپ حل نکال لیا، اس نے اپنے گیراج کو خالی کروا لیا، ظل سبحانی، اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ اپنے گیراج میں قید کروا دیا۔

بادشاہ کو 17 اکتوبر 1858 ء کو اس گیراج میں قید کیا گیا اور 7 نومبر 1862 تک تقریباً 4 سال کا عرصہ قید میں رکھا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور عالم غزل ﴿ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں ﴾ اسی قید و بند میں لکھی، قید و بند کی یہ کیفیت تھی کہ بادشاہ کو تازہ ہوا میں سانس لینے کے لئے ایک روزن یعنی کھڑکی بھی میسر نہ تھی۔ متواتر ایک الم کی صورت تھی کہ غم اتنا شدید تھا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا، کہاں تخت شاہی اور کہاں غریب الوطنی۔ اس بے یار و مددگاری کے عالم میں سوائے آہیں بھرنے کے کچھ میسر نہ تھے، غریب الدیاری کا عذاب روگ جاں کی صورت اختیار کر گیا۔ (جاری ہے )