کھل جا سم سم



کھل جا سم سم، کھل جا سم سم، اور دروازہ نہ کھلا وہ دستک دیتی رہی، وہ بڑا آ ہنی تالہ کھلتا ہی نہ تھا۔ روز رات کو جب روح بوکھلا کر رقص ہجراں پر اترتی ہے، بھٹکتی ٹھوکریں کھاتی پھر اس بند دروازے پر جاتی ہے۔ کون سا طلسم ہے آ خر جو اس دروازے کو کھلنے نہیں دیتا؟ کون سا منتر ہے جس کو پڑھنے سے یہ دروازہ کھل جائے؟ آج پھر مکالمہ شروع ہوا۔ ’لیکن تم اس ویران گھر میں جا کر کیا کرو گی؟ سنا ہے صدیاں بیتیں اس گھر کے مکیں یہاں سے چلے گئے۔

یہ تو اب بنجر دشت ہے۔ اور سنا ہے ادھر اب آ سیب بستے ہیں ’۔ وہ پتھر کی بنی یہ سب سن رہی تھی۔ ‘ سنو، سنو ادھر ایک خواب بدروح کی مانند، بگولہ بنا گھومتا ہے ’۔ اس کی آنکھوں میں پل بھر کو ایک چمک آئی، اور پھر سے چراغ بجھ گئے۔ ‘ وہ، وہ کیا خواب تھا؟ اسی کی تلاش میں تو ادھر آتی ہوں، ایک بار اس کو برپا دیکھ لوں، وہ کسی نے تب دیکھا تھا جب میں محبوبہ تھی ’۔ ‘ خواب، اچھا خواب، میں یاد کرواؤں؟ وہ تو سرسبز وحی تھی۔

تم کلائیوں میں ہری چوڑیاں بھرے، ہنستی آنکھوں کے ساتھ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بھاگتی تھی، اور وہ تمہیں بانہوں میں لینے کو بے تاب تمہارے پیچھے۔ اسی آنگن میں تب ہنسی کی فصل اگی تھی ’۔ ‘ ہاں، ہاں، مجھے یاد آ رہا ہے، پھر بے تاب عشق نے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑا تھا، تو وقت کا جھرنا پل بھر کو رکا تھا، جب جاذب و مجذوب ایک ہوئے تھے ’، ‘ ہاں، ہاں ہوتا ہے ایسا۔ ’یہ دروازہ کھول دو ناں ایک بار، مجھے اس آ نگن کو ایک بار دیکھنا ہے‘ ۔

’ اذیت، اذیت، اذیت‘ ، اور دروازہ کھل گیا۔ وہ بے تاب روح جھکڑ کی طرح اندر داخل ہوئی۔ ’وہ دیکھو! اس خواب کا ڈھانچہ بکھرا پڑا ہے، کہا تھا نہ کہ اندر نہ جاؤ‘ ۔ افسوس پورے گھر میں سوکھے پتوں کی مانند زبان بکھری پڑی تھی، مرجھائے لفظ، چھوٹی چھوٹی لاشیں بنا دفنائے، وہ سارے لفظ جو انہوں نے زبان سے چرائے تھے، محبت کے اظہار کو اور پھر بے بسی سے کہتے تھے، ’الفاظ پورے نہیں پڑتے، بیان نہیں کر سکتے، کس احمق نے زبان تخلیق کر دی؟

عشق کی اس داستان کا شکم کیسے سیر ہو؟ جذبات کے اظہار سے قاصر زبان اپنی شکست تسلیم کیے اکثر ہانپنے لگتی تھی۔ تو کیا اب شور مچائیں؟ جیسے صدیوں پہلے آ دم خور جنگلوں میں ہو ہو، ہا ہا کرتے اپنے جنون بیان کرتے تھے؟ وہ تو کسی اور وقت سے آئی تھی، اپنے جسم کو کہیں اور چھوڑ اس بچھڑے وقت میں، جہاں ایک خواب کا ڈھانچہ بکھرا پڑا تھا۔ مکالمہ جاری تھا۔ ’اور، اور کیا ہے زبان کی لاش اور خواب کی بکھری ہڈیوں کے علاوہ؟

اس نے بے تابی سے پوچھا۔ ’یہ برفانی تودوں کی طرح سرد خالی دیواریں، لیکن یاد کا بھڑکتا الاؤ ہے اس کی بنیادوں میں، یہ تو زندگی اور موت کی پنجہ آزمائی ہے۔ دیواروں سے آنسو ابلتے ہیں اہل مکان کی یاد میں۔ لیکن بہنے کی بجائے ابل کر وہیں جم جاتے ہیں، جیسے دور کسی ٹھنڈی گہری جھیل کی تہہ میں لاوا ابلتا ہو اور اس کے سینے پر کھڑے گلیشیر کو پسینہ آ جائے، آنسو یوں جمے ہیں دیواروں پر۔

اور کیا ہے بتاؤ تو؟ اور ہاں یہ دو پھولوں کا عرق ہے جیسے، عشق کیمیا گر تھا، جس نے ایک سیاہ گلاب لیا اور ایک چاندی سی کلی، زمانے بیتے، اور وہ بیٹھا رہا، نچوڑ لیں جان دونوں پھولوں کی اور ایک شیشی میں بند کر کے کہنے لگا، ’ان کی جان کا آخری قطرہ حصول خواہش ہے، طلب وصل ہے، وصول خواہش ہے، میں خود ہوں، یہ آ خری قطرہ انتہائے عشق ہے‘ ۔

’دن چڑھنے کو ہے تم جاؤ اپنے جسم میں واپس پھر سے تالا لگا دو گھر کو، کہ یہ یادوں کے آسیب آزاد ہو گئے تو پوری دنیا طلسم زدہ ہو کر حواس کھو بیٹھے گی۔ کہیں یہ دیوانگی اس کھنڈر گھر کی دہلیز پار نہ کر لے۔ ماضی بن کر بھی لمحے رہتے تو وقت کے دھارے میں ہی ہیں، بس ذرا منجمد ہو جاتے ہیں‘ ۔ ’میں جاتی ہوں لیکن کل پھر آؤں گی‘ ۔ کچھ دیر کو جان نجانے کدھر معلق رہی، زمان و مکان کے دھارے سے جدا، اور پھر ایک جھرجھری اور نحیف سی آ واز، ’میں، میں کون، کہاں ہوں‘ ؟

کچھ عرصہ نیم اندھیرے میں گھورتے رہنے کے بعد اس نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو اسے مجسمہ بنا ایک شخص نظر آ یا جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔ میں تمہارے دوسرے سوال کا جواب دے سکتا ہوں، لیکن پہلے سوال کا جواب میرے پاس نہیں ’اس شخص نے سادگی سے جواب دیا۔ ‘ پانی، مجھے پانی دو ’۔ وہ بولی۔ اور وہ کمرے کے کونے سے ایک پانی کی بوتل اور گلاس لے کر اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اٹھنے کی کوشش میں اس لڑکی کے منہ سے بے ساختہ کراہ نکل گئی۔

اس نے اپنے اردگرد دیکھا تو خود کو ایک چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں فرش پر بچھے بستر پر پایا۔ سامنے کھڑکی کھلی تھی، جو شاید گھر کے صحن میں کھلتی تھی۔ کمرے میں جو ہلکی روشنی تھی وہ اسی کھڑکی سے آ رہی تھی۔ لیکن دروازہ بند تھا۔ ’اگر مناسب سمجھو تو میں تمہاری اٹھنے میں مدد کروں‘ ؟ وہ شخص اس کے نزدیک ہوتے ہوئے بولا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن پھر سے اٹھنے کی کوشش میں اپنا بازو اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے بہت احتیاط سے اس کو کمر سے سہارا دے کر بٹھایا دیا اور خود گلاس میں پانی ڈالنے لگا اب وہ لڑکی نیم اندھیرے میں اس شخص کو غور سے دیکھ رہی تھی اور کمرے میں اپنی موجودگی پر بھی سوچ رہی تھی۔

’ پہلے پانی پیو، اپنے اعصاب کو سکون دو تم محفوظ ہو میں تمہیں موت سے بچا لینے کا دعوی تو نہیں کر سکتا لیکن کم از کم اس چار دیواری میں موجود دوسرے انسان کے شر سے محفوظ رکھنے کا دعوی کر سکتا ہوں‘ ۔ وہ انتہائی سکون سے اس سے بات کر رہا تھا۔ اچانک نزدیک ہی سے بہت زور سے دھماکے کی آواز آئی وہ جس فرش پر بیٹھی تھی وہ لرز اٹھا، پانی پیتے ہوئے اسے بہت زور سے کھانسی آئی، اور بہت دیر وہ کھانستی رہی۔ سانس بحال ہونے پر اس نے باقی کا پانی پیا اور دیوار کے ساتھ سر لگا لیا۔

اسے اپنے بائیں بازو پر پٹی بندھی نظر آئی، اور بائیں پاؤں پر بھی۔ ’تم زخمی تھی، اور ہوش میں نہیں تھی، میں تمہیں بہت سے زخمیوں میں سے اٹھا کر اپنے گھر لے آیا تھا اس امید پر کہ شاید تمہیں بچا سکوں۔ جس جگہ دھماکہ ہوا تھا، خوش قسمت ہو کہ تم ادھر سے فاصلے پر تھی۔ ‘ خوش قسمت، دھماکہ، جنگ، خواب، اذیت، میں ادھر ہوں یا ادھر ’‘ کیا سوچ رہی ہو؟ پریشان نہ ہو، تمہاری چوٹ چند دن میں ٹھیک ہو جائے گی اور پھر تم جدھر بھی جانا چاہو چلی جانا، میں تمہاری مدد کروں گا، کون ہو تم، کیا نام ہے تمہارا؟

اور اس جنگ زدہ علاقے میں تمہاری کیا کام آ خر ’؟ اس نے ایک سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ ‘ میرے نام اور کام کی حقیقت اور وقعت باہر کی دنیا تک تھی۔ میں نہیں جانتی میں کدھر ہوں، یہ جگہ زمین پر کدھر ہے۔ نام اور کام کو بھلا دینے کا اچھا موقع ہے ’۔ وہ آہستہ آہستہ جیسے خود سے بول رہی تھی۔ ‘ میرا کوئی نام نہیں ’۔ ‘ واہ کمال، چلو جب تک ہم ادھر ہیں ایک دوسرے کو اپنی مرضی کا نام دے دیتے ہیں، چلو سوال نہیں کرتے مزید شناخت کے بارے میں، تم مطمئن رہو ’۔

وہ بولا۔ ’میں بالکل اچھا محسوس کر رہی ہوں تم فکر نہ کرو شاعرہ‘ ، وہ بولی۔ اور وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔ ’ارے شاعر بھی نہیں شاعرہ، نام دیتے وقت میری جنس کا تو لحاظ رکھو، یہ تم نے کیا کہہ دیا؟‘ ۔ وہ ہنستے ہنستے کہتا رہا۔ ’کیا فرق پڑتا ہے ایک‘ ہ ’لگا دینے سے، شکر ہے کہ ہم زبان ہیں ہم ورنہ وقت کیسے گزرتا؟ وہ بھی اس جگہ جس کا کوئی محل وقوع ہی نہیں‘ وہ بھی ہنستے ہوئے بولی۔ ’اچھا تو سنو فلسفی! کیا ثبوت کہ وقت گزر رہا ہے اور گزر جائے گا؟

اس نے پوچھا۔ اور وہ بہت دیر اس کے فوراً بدلہ لینے پر ہنستی رہی۔ ’تم شاعرہ، اور میں فلسفی، یہ انسان بھی ناں نام کہ بنا شاید رہ نہیں پاتا‘ ، وہ بولی۔ لیکن کیا پتہ یہ خواب ہو اور وہ جدھر میں کچھ دیر پہلے تھی وہ حقیقت ہو؟ یہ اس کی خود کلامی تھی، ’وہ، وہ اجڑا دیار؟ ، ارے فلسفی تمہارا گھر محبت میں اجڑا اور ہمارا جنگ کی نفرت میں‘ ۔ اس نے اس کی خود کلامی کا بھی جواب دیا۔ ’کیا مطلب شاعرہ، کیا مطلب؟ ، تم نے میرا ویران گھر کیسے دیکھا، وہ تو، وہ تو، میری کسی یاد، خواب اور خیال میں تھا۔

تم تم ادھر کیسے، کیسے ’؟ میں ایسے ہی ادھر، جیسے ادھر۔‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ کتنے لمحے یونہی گزر گئے اور وہ ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ ’لیکن اصل میں تو یہ حقیقت ہے ناں، دیکھو مجھے بھوک اور پیاس کا احساس ہو رہا ہے، باہر سے گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں‘ ۔ وہ بے ساختہ بولی۔ ’آوازیں تو کچھ دیر پہلے تمہاری ہری چوڑیوں کی بھی آ رہی تھیں، سوکھے پتوں کی طرح بکھرے الفاظ کی لاشوں پر چلنے سے بھی آ رہی تھیں‘ ، وہ بولا۔

’چپ رہو، بس چپ رہو، ۔ وہ چیخی۔‘ ورنہ، ورنہ، کیا ’؟ اس نے پوچھا۔ ورنہ مجھے تم سے محبت ہو جائے گی شاعرہ۔ وہ بولی اور اپنی گود میں سر چھپا لیا۔ ‘ ارے میرے فلسفی! پھر سے محبت؟ ابھی تو تیرے اجڑے دیار میں سر گرم ہیں نوحے ہجر کہ، اور تمہیں پھر سے محبت ہونے کو ہے ’؟ وہ اس کے قریب ہو کر اس کہ بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ ‘ کدھر تھے تم؟ نجانے کب سے میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی ’۔ وہ اپنی ہی گود میں منہ چھپائے روتے ہوئی بول رہی تھی۔

’ میں بھی تو کچھ ڈھونڈ رہا تھا، ایک تلاش میں تھا‘ وہ بولا۔ ’کس کی، کس کی؟ میری ناں۔ ؟ ‘ اس نے سر اٹھا کہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’میں تو تمہارا حصہ ہوں، الگ نہیں ہوں تم سے، مجھے تمہیں کیوں ڈھونڈنا تھا؟ میں تو الہامی کتابوں میں ذکر کیے گئے عہد الست کو اپنی یاداشت کی راکھ سے ڈھونڈنے کی کوشش میں ہوں۔ اگر کوئی لمحہ ایسا تھا تو خالق کو اس کا شعوری جواب دینا چاہتا ہوں، انکار کرنا چاہتا ہوں خلیفہ بننے سے، ان جنگوں کی حقیقت کا جنت میں بسی روحوں کو ادراک ہوتا تو وہ شاید باجماعت انکار کر دیتی خلافت لینے سے۔

میری اور تمہاری تلاش کوئی مختلف نہیں، تم ابتدا کی تلاش میں ہو میں انتہا کی۔ ہم دونوں انسانیت کی اکائی ہیں، ایک لمحے کی بات ہیں، ایک دوسرے کا حصہ ہیں ’، وہ بول رہا تھا جب اس نے بات کاٹ دی، ‘ لیکن میں تمہیں اب کھونا نہیں چاہتی۔ چلو نکلو ادھر سے، دور کسی وادی میں، ہم نے اپنے نام اور شناخت واپس کر کہ ایک دوسرے کو پایا ہے۔ میں کبھی مرنا نہیں چاہتی، ہمیشہ زندہ رہنا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ، چلو وقت کہ اس پیمانے سے اتر جائیں، چلو مجھے کسی تصویر، کسی نقش کی طرح کہیں کنندہ کر دو میں تمہیں کہیں ثبت کر دوں ’، وہ بے چین تھی۔

وہ ابھی بول رہی تھی جب اچانک ان دونوں کو کمرے میں کسی تیسرے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ کم روشنی میں صرف ایک سایہ سا محسوس ہوا۔ ’کون ہو تم‘ ؟ ’میں؟ مجھے پہچانا نہیں تم دونوں نے، حیرت ہے‘ ۔ آ نے والے نے سوال کیا۔ ’لیکن بند کمرے میں تم کدھر سے آئے‘ ؟ سوال کا جواب پھر سے سوال تھا۔ میں مصنف ہوں بھئی، اور تم دونوں میری کہانی کے کردار ہو۔ نو وارد نے جواب دیا۔ ’مصنف، کردار۔ نہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔

ہم جیتے جاگتے، سوچنے سمجھنے والے سوال کرنے والے باشعور انسان ہیں ’۔ ‘ ارے نہیں تم لوگ محض کردار ہو، اور میں اس افسانے کا لکھاری، میں اب یہ کہانی ختم کرنا چاہتا ہوں، لیکن تم دونوں کا مکالمہ تو ختم ہونے کو نہیں آ رہا، اور میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ تم لوگ خود سے بولنا شروع ہو گئے ہو۔ اس لئے مجھے آنا پڑا ہے یہ بتانے کے لئے کہ مصنف ابھی زندہ ہے میں تو شروع سے موجود تھا تم غائب ہو کردار ہو میرے قلم کے نیچے ہو لیکن تم تو غالب آنا شروع ہو گئے تھے ’۔

’ نہیں تم جھوٹ بولتے ہو ہم کردار نہیں حقیقت ہیں، حاضر ہیں، تم غائب ہو، یہ افسانہ تو نہیں، حقیقت ہے۔ دیکھو باہر جنگ لگی ہوئی ہے، ہم محسوس کر رہے ہیں۔ یہ دھماکوں کی آواز سنو، ہمیں چھو کر دیکھو، یہ دیکھو، یہ وجود گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں‘ نجانے ان دونوں میں سے کون بول رہا تھا، لیکن وہ ہم آ واز تھے۔ فضول بحث نہ کرو، تم لوگوں نے اپنے نام خود رکھ لیے، اپنی شناخت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ چلو اب صفحہ قرطاس پہ منجمد ہو جاؤ تم دونوں کا وقت ختم ہوا۔

مصنف بیزاری سے اپنی ڈائری کھولتے ہوئے کچھ لکھنے لگا۔ نہیں، نہیں، یوں اچانک افسانہ ختم نہیں ہوتا، تھوڑی مہلت دو۔ آخر سچ کیا تھا؟ وہ اجڑا گھر، یہ جنگ زدہ وقت یا تمہارا آنا؟ اس میں کیا حقیقت تھی کیا افسانہ؟ ہم کس دنیا کی حقیقت ہیں وہ خواب، یہ کمرا جس کہ باہر جنگ برپا ہے یا تمہارے صفحات ’؟ ‘ میں بھی نہیں جانتا سچ کیا ہے، خاموش رہو ’، مصنف بیزاری سے بولا اور لکھنا شروع ہوا، ان کہ الفاظ اب محض شور بن چکے تھے۔ وہ دونوں دھوئیں کی طرح اس کے کھولے صفحے میں تحلیل ہونے لگے، بگولوں کی طرح خواب، عذاب، خواہشیں، حقیقتیں، ہنسنا رونا، عقل، جذبات، روح، جسم، میں، تم اور پھر کچھ بھی نہیں‘ ۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).