نیورو سرجن ڈاکٹر عبدالعزیز: متعدد ہائی رسک آپریشن کرنے والے ڈاکٹر جن کی سانسیں مریضوں کی سانسوں کے ساتھ چلتی ہیں

محمد زبیر خان اور عرفانہ یاسر - ایبٹ آباد


پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان
’میں راؤنڈ پر تھا کہ مجھے فون کال آئی کہ جلدی پہنچیں، مریض کی حالت بہت خراب ہے۔۔۔۔‘

’جب میں وہاں پہنچا تو مریض کے سر میں کلہاڑی پیوست تھی۔ اس کلہاڑی نے مریض کے سر کے بالائی حصے کو چیر دیا تھا اور دماغ کی بہت ساری شریانوں کو کاٹ دیا تھا۔‘

’ہم نے کافی سوچ بچار کے بعد سر سے کلہاڑی نکالی۔ رگوں کو دوبارہ جوڑ کر سر پر ٹانکے لگا دیے۔ اس آپریشن پر غالباً دو گھنٹے لگ گئے۔ مگر بروقت اس آپریشن کی وجہ سے مریض کی زندگی محفوظ رہی۔‘

یہ کہنا ہے ایبٹ آباد کے ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر عبدالعزیز کا، جنھوں نے اب تک کی اپنی پروفیشنل زندگی میں بہت سے ایسے ہائی رِسک آپریشنز کیے ہیں جن میں مریض کی جان جانے کے خدشات ہوتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے نازک اور حساس آپریشن کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

پروفسیر ڈاکٹر عبدالعزیز خان نے ایم بی بی ایس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ اسی طرح انھوں نے نیورو سرجری کی سپیشلائزیشن میں بھی امتیازی پوزیشن حاصل کی تھی۔

انھیں سابقہ افغان حکومت کے ایک سفیر کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرنے کے علاوہ کئی افغان مریضوں کے حساس آپریشن کرنے پر شیلڈ بھی پیش کی گئی تھی۔

’مہربان ہونے کے لیے ظالم بننا پڑتا ہے‘

ڈاکٹر عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ’مہربان ہونے کے لیے ظالم ہونا پڑتا ہے۔ مجھے اپنی سرجری کی تربیت کے دوران اساتذہ نے کہا تھا کہ اگر مریض پر ترس کھاؤ گے تو اس کی جان نہیں بچا سکو گے۔‘

’مریض کی جان بچانے کے لیے بے رحم ہونا پڑتا ہے۔ دماغ کی سرجری میں تو ہر مریض ہی نازک اور خطرے میں گِھرا ہوتا ہے۔ ہر آپریشن ہی حساس ہوتا ہے۔ اس طرح کے آپریشنز کے دوران آپ کی توجہ کہیں دوسری طرف کے لیے تھوڑی سی بَٹی اور ہاتھ تھوڑا سا غیر ضروری ہلِا تو انتہائی خطرناک نتائج سامنے ہوتے ہیں۔‘

’نیورو سرجن ہیرا تراشتا ہے‘

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کہتے ہیں کہ طب کا پیشہ مجموعی طور پر قربانی اور حد درجہ لگن مانگتا ہی ہے، مگر نیورو سرجری کہیں زیادہ قربانی کا تقاضہ کرتی ہے۔ ’یہ بہت ہی زیادہ حساس معاملہ ہوتا ہے۔ نیورو سرجن کی مثال کچھ ایسے دی جاتی ہے کہ نیورو سرجن ہیرے تراشتے ہیں، جب کہ دوسرے سرجن گولڈ سمتھ ہوتے ہیں، مطلب کہ وہ سونا ڈھالتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عبدالعزیز کا کہنا ہے ’سونے سے بننے والی کوئی بھی چیز دوبارہ ڈھل سکتی ہے، اور اس دوران وہ قابل استعمال رہتی ہے۔ اس کی حیثیت اور نوعیت پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک مرتبہ ہیرا غلط کٹ جائے تو اس کی صورت کو واپس لانے کا کوئی راستہ نہیں بچتا، یعنی نیورو سرجری میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نیورو سرجری کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دوران شرح اموات اور شرح معذوری بہت زیادہ ہوتی ہیں۔‘

ایکسیڈنٹ اور مار پیٹ کے کیسز

ڈاکٹر عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کیریئر میں دیکھا ہے کہ نیورو سرجری میں عام طور پر دو طرح کے کیسز آتے ہیں۔

ایک طرح کے کیسز وہ ہیں جن میں ایکسیڈنٹ کی وجہ سے دماغ میں چوٹ لگ جاتی ہے تو دوسری قسم کے تشدد کے کیسز ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق تشدد اور مار پیٹ کے واقعات میں بھی خواتین کے زخمی ہونے کے کیسز بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ گھر میں کوئی لڑائی ہو اور گھر کے مرد باپ، شوہر، بھائی یا چچا وغیرہ جو ہاتھ میں آئے اشتعال کی حالت میں وہ چیز دوسرے کے سر میں دے مارتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ایسے کیسز بہت زیادہ چیلینجنگ ہوتے ہیں۔

‘مشکل ترین سرجریوں میں سے ایک سرجری’

ڈاکٹر عبدالعزیز حال ہی میں ایک مریضہ کے دماغ سے ایک خطرناک کیڑے سے بننے والے ہائڈیٹِڈ سِسٹ کی سرجری کو اپنے کیریئر کا ایک ایسا کیس سمجھتے ہیں جو ان کے اور ان کی ٹیم کے لیے انتہائی چیلینجنگ تھا۔

ان کا کہنا ہے ’گلشن (فرضی نام) نامی ایک مریضہ جب ہمارے پاس آئیں تو ان کی حالت انتہائی خراب تھی۔ وہ چل سکتی تھیں نہ ہی انھیں اپنا کوئی ہوش تھا۔ جب وہ میرے پاس آئیں تو وہ تقریباً بیہوش تھیں۔ ان کو قے ہونے کے علاوہ جھٹکے لگ رہے تھے۔‘

ڈاکٹر عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ خاتون کی صحت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے پر ان کے رشتے داروں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی لیکن وہ گذشتہ تقریباً دو برسوں سے اس مرض سے لڑ رہی تھیں اور ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔

ہیرو سیریز کی دیگر تحاریر

’مردہ ماں کے پیٹ سے لٹکی بچے کی ٹانگ دیکھ کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا‘

’ریپ کے ملزمان کو پکڑنے کے لیے آٹھ گھنٹے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر انتظار کیا‘

’معائنے اور ٹیسٹوں کے بعد پتا چلا کہ ان کے دماغ میں ہائڈیٹِڈ سِسٹ ہے۔ ہماری ٹیم نے مشورہ کیا اور پھر فیصلہ ہوا کہ ان کا آپریشن کیا جائے، کیوں کہ اس طرح کے مریض کا آپریشن کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔ اب یہ آپریشن حساس بھی تھا، اور پُرخطر بھی۔‘

ڈاکٹر عبدالعزیز خان کا کہنا تھا ’ہم نے خاتون کو آپریشن کے لیے تیار کیا۔ اس کے لیے مریضہ کو دو، تین دن تک ہسپتال میں رکھا گیا۔ لواحقین کو خطرات سے آگاہ کیا کہ یہ ایک انتہائی حساس کیس ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان

ڈاکٹر عبدالعزیز خان کہتے ہیں ’پاکستان کیا، دنیا بھر میں بھی اس طرح کے کیس انتہائی کم تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ آپریشن ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے تقریباً پندرہ سالہ پروفیشنل زندگی میں ایسے صرف تین کیسز کیے ہیں۔ ان میں خطرات کا سکیل بہت بڑا ہوتا ہے۔ مریض اگر بچ بھی جائے تو کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا خطرہ بہرحال موجود ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس آپریشن کے دوران سِسٹ کو مکمل طور پر نکالنا ہوتا ہے اور اگر اسے نکالا نہ جائے اور معمولی نقصان بھی پہنچ جائے، یا اس کو مکمل طور پر نکالا نہ جائے تو وہ پورے دماغ میں پھیل جاتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کا کہنا تھا کہ مریضہ کو بے ہوش کرنا بھی ایک چلینج تھا۔ ’ان کو ہمارے اینستھیزیولوجسٹ نے بے ہوش کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’مردہ ماں کے پیٹ سے لٹکی بچے کی ٹانگ دیکھ کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا‘

’ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ آئرلینڈ میں خدمت کروں اور اپنے لوگوں کو چھوڑ دوں‘

’کہا گیا کہ ڈاکٹر چھوڑیں، بچی کو سکون سے مرنے دیں‘

مرگی کا علاج کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر جنھوں نے اپنے ملک کو امریکہ پر ترجیح دی

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کہتے ہیں کہ بہت ساری احتیاطی تدابیر کے بعد اور اینستھیزیولوجسٹ کی نگرانی میں آپریشن شروع کیا گیا۔ جن میں بے ہوشی کے ماہر ڈاکٹر (اینستھیزیولوجسٹ)، مریضہ کی ایک ایک سانس اور دل کی دھڑکن پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

’سب سے پہلے ہمارے زیرِ تربیت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ان کے سر کو کھولا۔ پھر ان کی کھوپڑی کو کھولا اور اس کے اندر موجود پردے کو بھی کھولا۔ ہم سب نے ایک بار پھر اس بات کو جاننے کے لیے معائنہ کیا کہ آخر ہم نے کرنا کیا ہے اور کیسے خاتون کے مرض کے سبب اس ناسور کو نکال باہر کرنا ہے۔ اپنی پوری حکمتِ عملی تیار کر کے ہم نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔‘

پروفسیر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کا کہنا تھا ’اس کے بعد آہستہ آہستہ اور بہت احتیاط کے ساتھ ہم نے اس مقام پر پہنچنا شروع کر دیا، جہاں پر وہ ناسور موجود تھا۔ اس کے لیے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑا تھا۔ ایک ایک کر کے ہم ان مراحل کو بہت احتیاط سے طے کرتے جا رہے تھے۔

’یہ ایک بہت مشکل بلکہ سنسی خیز آپریشن تھا جس میں ہمیں مریضہ کے جاری خون اور وقت پر بھی نظر رکھنا تھی۔ اسی طرح ہمیں خیال رکھنا تھا کہ سِسٹ کو ہٹاتے ہوئے خون بھی نہ بہے۔ عمر کے حساب سے زیادہ وقت کی بے ہوش بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ اس دوران ہمیں اپنا کام اس احتیاط سے مکمل کرنا تھا کہ مریضہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں ’ہم نے اس آپریشن کو کوئی تین گھنٹے میں مکمل کیا۔ دو گھنٹے کی کوشش کے بعد ہم اس کو مکمل طور پر نکال چکے تھے۔ اس موقع پر ہمیں اینستھیزیولوجسٹ نے بھی بتایا کہ مریضہ کے تمام اعضا ٹھیک کام کر رہے ہیں۔

’بس یہ وہ مرحلہ تھا جب ہمیں پتا چلا کہ ہمارا آپریشن کامیاب ہو گیا ہے۔ ان کے دماغ میں سے سسٹ کو مکمل طور پر نکال کر صفائی کی گئی۔ مریض کو 24 گھنٹے تک آئی سی یو میں رکھا اور پھر وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔‘

ہائڈیٹِڈ سِسٹ کیا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کہتے ہیں کہ ہائڈیٹِڈ سسٹ عام طور پر ایک کیڑے کی وجہ سے دماغ میں یا جسم کے کسی دوسرے حصے میں بنتا ہے۔ یہ کیڑا یا مرض گندگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سلاد، سبزیاں اور پھل صاف کر کے نہ کھائے جائیں۔ عموماً سلاد اور سبزیوں پر کتے اور سُؤر کے پاخانے کے کچھ اجزا موجود ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سلاد اور سبزیاں مناسب انداز میں دھو کر نہ کھائی جائیں تو گند انسانی معدے میں پہنچتا ہے۔ معدے سے یہ آنتوں میں اور آنتوں سے خون میں شامل ہو کر دماغ میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کیڑے سے مرض ’اکانیا کاکس گرینالویس‘ بنتا ہے۔ جو انسان کو عملاً معذور ہی کر دیتا ہے۔ یہ دماغ میں ایک فٹ بال کی طرح بنتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کا کہنا تھا کہ اس مرض کی شدت اگر زیادہ ہو جائے تو پھر اس کا علاج یا آپریشن بھی تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور ان کے مطابق اس میں وقت کی بھی بہت اہمیت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کیس ہسٹری سے بھی پتا چلا کہ مریضہ کھیتوں سے سلاد اور سبزیاں توڑ کر کھا لیا کرتی تھیں۔ غالباً وہ ان کو تازہ سمجھا کرتی تھیں۔ جس وجہ سے وہ اس مرض کا شکار ہوئی تھیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان

نیورو سرجری میں وقت، دوا سے بھی اہم ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کے مطابق ایک نیورو سرجن 24 گھنٹے آن کال ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی مریض کو نہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ’نیورو سرجن جانتے ہیں کہ مریض کی زندگی بچانے کے لیے وقت کی بہت اہمیت ہے۔‘

وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر سر پر لگنے والی شدید چوٹ پر اگر ایک مریض ایک گھنٹے میں نیورو سرجن تک پہنچ جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بچ جانے کے امکانات ستر فیصد ہوتے ہیں۔ یہی مریض اگر دو گھنٹے لیٹ پہنچتا ہے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ امکانات پچاس یا چالیس فیصد ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک ڈاکٹر کی زندگی کافی زیادہ تناؤ میں رہتی ہے۔‘

’مریض کی سانسوں کے ساتھ ہماری سانسیں چلتی ہے‘

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان کہتے ہیں ’مریض جب ہماری سامنے آپریشن ٹیبل پر لیٹا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے دل کی ایک ایک دھڑکن کو ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ مریض کی سانسوں کے ساتھ ہی ہماری سانسیں بھی چل رہی ہوتی ہیں اور جاتی بھی محسوس ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس موقع پر ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ اس کا دماغ باہر نکلا ہوا ہے۔ یہ کہیں مر نہ جائے، معذور نہ ہو جائے۔ مریض پر ترس آنا شروع ہو جائے۔ اس وقت منفی سوچ سوچنا شروع کر دیں تو پھر ہم اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر پاتے۔ اس موقع پر ہمیں سوچنا ہوتا ہے کہ ہمیں مریض کی زندگی کے لیے بے رحم ہونا ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments