بُوٹ والوں کا ہاتھ


ہمارے وزیر داخلہ جب سے شہ کے مصاحب بنے ہیں ان کے خود ساختہ ترجمان بھی بن بیٹھے ہیں جو بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں خوامخواہ سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ابھی مقتدرہ کے ترجمان کے بیان کی باز گشت فضاوٴں میں تھی کہ ہم نواز شریف سے کوئی ڈیل نہیں کر رہے اور یہ کہ ہمارا دفاع کے علاوہ کسی شعبے سے لینا دینا نہیں کہ شیخ صاحب نے ہاتھ بھر کی زبان بن کر بڑے تفاخر سے فرمایا کہ ہماری آبرو جن کے ہاتھ میں ہے وہ کبھی ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔

شیخ صاحب نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اپوزیشن لیڈرز اندھی مچھلی کی طرح سہانے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ ہم عقل کے اندھوں کی طرح حکومت چلا رہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر لانے والوں نے ہماری آبرو سے ہاتھ اٹھا لیا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ فی الحال تو ہاتھی کے پاوٴں میں سب کا پاوٴں کے مصداق بھان متی کا کنبہ بالکل مطمئن ہے کہ ہم ہاتھ پاوٴں ہلائیں نہ ہلائیں جب تک غیر سیاسی والوں کی دست گیری حاصل ہے ہمیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔

ادھر کپتان کے مداحین اور بہی خواہ ہر آن انہیں بتاتے رہتے ہیں کہ وہ اب بھی عوام میں بے حد مقبول ہیں اور ان کے مقابلے میں جتنے بھی سیاسی لیڈر ہیں وہ ان کے سامنے بونے ہیں۔ اس پر ہمیں مرد مومن مرد حق ضیا الحق کے دور کا ایک مشہور لطیفہ نما واقعہ یاد آ رہا ہے۔ اس زمانے میں جنرل صاحب کے خلاف بڑے تواتر سے لطیفے منظر عام پر آرہے تھے، جس طرح آج کی حکومت کے خلاف لطیفوں کا زور ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی حکومت اس ٹرینڈ سے بڑی پریشان تھی۔

جنرل ضیا نے حکم دیا کہ لطیفہ بازوں اور لطیفہ طرازوں کو میرے حضور پیش کیا جائے۔ ایک صاحب کو ان کے روبرو پیش کیا گیا۔ جنرل صاحب نے کڑک کر پوچھا کہ تمہیں میرے خلاف ایسے لطیفے گھڑنے کی جرات کیسے ہوئی، تمہیں معلوم نہیں کہ میں ملک کا سب سے مقبول لیڈر ہوں؟ اس پر اس شخص نے باوردی جنرل صاحب کے گھٹنے چھو کر عرض کی کہ جناب! یہ لطیفہ ہر گز میں نے نہیں بنایا۔

مجھ سمیت کئی لوگوں کو آج ہی پتہ چلا کہ اندھی مچھلی نہ صرف خواب دیکھتی ہے بلکہ سہانے خواب دیکھتی ہے اور وہ بھی اپوزیشن لیڈروں کی طرح۔ خوابوں کا ذکر آیا ہے تو ابھی کل کی بات ہے کہ بائیس سالہ جدوجہد والے لاڈلے کپتان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر نوجوانوں کو سہانے سپنے دکھائے تھے۔ مگر جب کپتان امپائر کی انگلی تھامے اقتدار میں آئے تو وہ سارے سپنے ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے، ارمان مٹی میں مل گئے، امیدوں پر پانی پھر گیا اور حسرتیں دم توڑ گئیں۔ کپتان نے پہلے تقریروں میں بتایا کہ جب ملک میں مہنگائی، لاقانونیت، اقربا پروری، انارکی، معاشی زبوں حالی، چور بازاری اور کرپشن کا بازار گرم ہو تو سمجھ جائیں کہ ملک کا وزیراعظم چور، خائن، کرپٹ اور ڈاکو ہے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد پریکٹیکل کر کے بھی یہ سب بتا دیا۔

ویسے جس طرح ہمارے کپتان نے ہینڈسم ہونے پر کبھی غرور نہیں کیا اسی طرح کبھی اپنے صادق و امین ہونے پر بھی تکبر نہیں کیا۔ بالکل اس لڑکی کی طرح جس نے مولوی صاحب کے سامنے اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولوی صاحب! میں نے سنا ہے کہ متکبر آدمی کبھی جنت میں نہیں جائے گا مگر میں تو اپنے حسن و جمال پر بہت تکبر کرتی ہوں۔ اس پر مولوی صاحب نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، یہ تکبر نہیں تمہاری غلط فہمی ہے اور غلط فہمی پر کوئی سزا نہیں۔

آج کل شیخ صاحب اپنی وزارت کا کام چھوڑ کر ہمہ وقت اپوزیشن کو لتاڑتے اور کپتان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ کبھی جنرل ضیا کو مرد حق، نواز شریف کو مرد بحران، جنرل مشرف کو سیدی قرار دیتے تھے۔ رانا ثنا اللہ نے شیخ کے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ عمران خان کی ملازمت پوری ہونے والی ہے اور شیخ صاحب جیسا چپڑاسی ہی عمران کی چھٹی کروائے گا۔ ویسے ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ شیخ صاحب ایسے بیانات کے ذریعے اگلے پانچ سال کی ملازمت پکی کر رہے ہیں یا جوتا مانگ رہے ہیں؟ اس امیدوار کی طرح جو انٹرویو دیتے وقت بار بار کہہ رہا تھا کہ سر میں نے ملازمت کے لیے اتنی کوششیں کیں کہ میرے جوتے گھس گئے۔ اس پر انٹرویو پینل کے سربراہ نے جھلا کر پوچھا کہ برخوردار یہ بات تم بیسیوں بار کہہ چکے ہو۔ مجھے بتاوٴ تمہیں ملازمت چاہیے یا جوتا؟

ہماری خواہش ہے کہ شیخ صاحب اور ان کے کپتان کی تمنا پوری ہو اور جس ہاتھ نے ان کو پال پوس کر جوان کیا، ان کے لیے ماحول سازگار بنایا، امپائر اور تھرڈ امپائرز کے ذریعے ان کے سیاسی حریفوں کو ایک ایک کر کے مقابلے سے آوٴٹ کیا اور ان کے سر پر تاج شاہی رکھا;وہ خفیہ یا علانیہ ہاتھ سدا ان کے سر پر رہے اور آئندہ بھی اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھے مگر شیخ صاحب اور کپتان کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ وہ ہاتھ اور ہاتھ والے جس قدر بھی طاقتور، با اثر اور رسوخ والے ہوں زیادہ دیر اس سر پر ٹکے نہیں رہ سکتے جس میں دماغ کی جگہ بھوسا بھرا ہو۔ ویسے نواز شریف اور نون لیگ سادگی میں مارے گئے۔ وہ قانون کی جنگ لڑنے کے لیے ماہر و منجھے ہوئے وکیل اور انصاف پرور جج کرتے رہے ادھر کپتان اور اس کے حواریوں نے کمال ہوشیاری دکھاتے ہوئے سالم ہاتھ والے کر دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ن کے ساتھ ہاتھ ہو گیا جبکہ کپتان اور ان کے ہالی موالی دولت سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments