کیا جاوید غامدی اور احمدجاوید کا بیانیہ اپنی افادیت کھونے لگا ہے


ہماری روایتی فکر میں قصے کہانیاں اور کراماتی چٹکلے سنا کر داد سمیٹنے والوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے اور انہی کہانیوں سے سادہ لوح عوام بہلتے رہتے ہیں، واہ واہ، سبحان اللہ اور بے شک کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں۔ ہماری روایتی فکر کے یہ دو نام ایسے ہیں جو واقعی صاحب مطالعہ، کشادہ ذہن اور جدید فکریات پر گہری نظر رکھنے والے لوگ ہیں اور ایک کثیر تعداد ان کی علمی صلاحیتوں کی معترف ہے، ان کی سب سے بڑی خوبی مدمقابل کی بات کو تحمل سے سن کر خندہ پیشانی سے جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

جب کہ درس نظامی والے اس ظرف اور حلم سے اکثر محروم ہوتے ہیں اور مدمقابل کو سخت زبانی سے ڈیل کرنے کے بعد اسے دائرہ مذہب سے نکال باہر کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں کیونکہ ایسے نایاب لوگوں کا ”چیلنجنگ وے“ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کہا جاتا ہے کہ جن راستوں یا شاہراؤں پر لوگوں کی اکثریت ایک لمبا عرصہ سے چلتی آ رہی ہو ان راستوں پر آہستہ آہستہ شگاف، گڑھے اور کھڈوں کی صورت میں نقائص ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں اور آخر ایک وقت آتا ہے جب لوگ ایسے پامال راستوں کو دیکھ کر کنی کترانے لگتے ہیں اور نئے راستوں کا انتخاب کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جو تھوڑے بہت لوگ ان پامال راستوں پر چل رہے ہوتے ہیں وہ دراصل نیم دلی سے چلتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔

بہت کم لوگوں میں یہ حوصلہ ہوتا ہے جو دبنگ انداز میں اپنی فکری روایت کی کجیوں، کمزوریوں اور نامعقول زاویوں کا کھل کر اعتراف کر کے اپنی بے بسی کا دیانت دارانہ بنیادوں پر اظہار کر سکیں۔ ورنہ تو ہمارے سماج میں روایتی فکر کے سبھی کرتا دھرتا اپنے درجنوں دھڑوں کے ساتھ اپنے اپنے ہجوم کو خوش کرتے رہتے ہیں اور سلسلہ روزگار بھی چلتا رہتا ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا کسی فرقہ سے واسطہ نہیں ہے وہ اپنی ماڈرن لک، انگریزی زبانی اور دنیا کے مہان فلسفیوں کو پڑھ کر ان کے ماحاصل کو اپنی روایتی فکر میں مکس کر کے ایک ”فلسفیانہ سوہن حلوہ“ کی صورت میں پینٹ شرٹ پہننے والے پڑھی لکھی کلاس جنہیں ”ممی ڈیڈی“ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سامنے پیش کر کے اپنی فالوونگ بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں۔

ایسے لوگ چاہے جتنی مرضی فلسفیانہ گفتگو کر لیں جتنے بھی ماڈرن بن جائیں مگر ان کے اندر کا ”روایتی مولوی“ کبھی نہیں مرتا، آپ شاعر مشرق کی شاعری سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں اور دنیا بھر کی سیر و سیاحت کے بعد نتیجہ وہی روایتی ”بندہ مومن“ کی صورت میں سامنے آیا۔ موقع کی مناسبت سے رنگ بدلنا چاہے اس عمل میں کتنی ہی مضحکہ خیزی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جن اصطلاحی یا استعاراتی زبان میں یہ لوگ گفتگو کرتے ہیں اس ”مخصوص زبانی“ کی اکثریت کو تو سمجھ ہی نہیں ہوتی۔

گزشتہ دنوں جاوید احمد غامدی نے بھی کچھ ایسا ہی اقدام کیا، ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ گزشتہ دنوں میڈیکل سائنس میں ایک بہت بڑا انقلاب آیا ہے ایک 57 سالہ شخص کے جسم میں بڑی کامیابی سے سور کا دل ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے اور یہ آپریشن کامیاب رہا آپ اس کامیابی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ غامدی صاحب نے فرمایا کہ

”اگر اس وقت میں مریض ہوتا تو بخوشی اللہ کے حضور پیش ہونے کو ترجیح دیتا مگر سور کا دل نہ لگواتا“
ان کا یہ بھی موقف تھا کہ

”سور کا گوشت کھانے سے انسان میں درندگی پیدا ہوتی ہے اور یہاں تو پورے کا پورا آرگین ہی ٹرانسپلانٹ کر دیا گیا ہے“

لوجک اور منطق کی باتیں کرنے والا غامدی اس سوال پر سٹپٹا گیا اور جتنی بھی انہوں نے گفتگو فرمائی وہ تمام باتیں ایک دوسرے کے ساتھ متصادم تھیں اور عقلی جواب دینے کی بجائے اس سوال کو ”اپنی ذاتی خواہش“ کے ساتھ نتھی کر کے معاملہ ایک طرف کر دیا۔ پہلی دفعہ انہیں اتنی مشکل صورت حال میں پھنسا پایا ان کے تمام فلسفہ ایک طرف رہ گئے جس روایتی سوچ کا مقابلہ کرنے کی پاداش میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا تھا آخر کار وہی روایتی فکر ان کا آخری سہارا ثابت ہوئی جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ غامدی صاحب بھی اسی روایتی فکر کا حصہ نکلے جس کا رونا ہم اکثر روتے رہتے ہیں۔

اسی فلسفہ زبانی کے دوسرے پرچارک احمد جاوید ہیں جنہوں نے مغربی ادب بھی خاصا پڑھ رکھا ہے وہ بھی اپنی مشکل ترین فلسفیانہ زبانی ذریعے روایتی فکر کو پرموٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی اس کامیابی پر ان کا کیا موقف ہے اس کے متعلق تو پتہ نہیں مگر ان کے اندر بھی ”روایتی جھلک“ ان کی گول گول فلسفیانہ باتوں میں عیاں ہوتی رہتی ہے اور ان کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی گفتگو کو صرف ”فنافی الجاوید“ کے مرتبہ پر فائز لوگ ہی سمجھیں ایروں غیروں کو ان چکروں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کی گفتگو کو سمجھنے کے لئے بندے کا بہت زیادہ فارغ ہونا ضروری ہے چونکہ کڑی سے کڑی ملانے کے چکر میں بہت زیادہ ذہنی مشقت درکار ہوتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ آج کل روٹی ہی پوری ہو جائے تو بڑی بات ہے اتنا صبر اور حوصلہ تو بہت دور کی بات ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اپنی گفتگو میں جو بھی مقدمہ پیش کرتے ہیں وہ عقل سے زیادہ جذبات کو اپیل کر رہا ہوتا ہے اتنی گھما گھما کر بات کرتے ہیں کہ ان کی گول گول ”فلسفیانہ جلیبیوں“ کو پکڑنے کے لیے خاصا وقت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے ان چکروں میں آج کون پڑھتا ہے اور لوگوں کی اکثریت ان کی اصطلاح بیانی سے خوش ہو کر متاثر ہو جاتے ہیں روایتی سسٹم کو جدید رنگ میں پیش کرنے والے یہ دونوں گیانی جو اپنی انتھک محنت سے ”علمی فرض کفایہ“ ادا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں مگر آخر کب تک؟

وقت تو ان کو لتاڑتا پچھاڑتا چلا جا رہا ہے اور سائنس جو دن رات معجزہ پہ معجزہ کیے جا رہی ہے آخر یہ کب تک روایتی فکر کو نئی فکر کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے؟ ہماری روایتی فکر تو مسلسل نئے سوالات اور چیلنجز کی زد میں آتی جا رہی ہے اور ہمارے پاس یہ چند لوگ جو ہر جگہ دفاع کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر آخر کب تک؟ کیا ہماری روایتی فکر کی تشریحات پر ایک کڑا وقت نہیں آ چکا ہے؟ ہم تو یہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ”یہ قرب قیامت میں سے تھا کہ علم اٹھ جائے گا، علم تو واقعی اٹھ چکا ہے مگر کس قوم سے اٹھا ہے؟

یہ سوچنے والی بات ہے۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ“ ہر قسم کا غیب کا علم قادر مطلق کے پاس ہے اور اسے کوئی نہیں جان سکتا ”مگر آج تو بہت کچھ واضح ہو چکا ہے اور جاننے کی یہ رفتار دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک انسان کے“ ڈی این اے ”سے بالکل ویسا ہی دوسرا انسان تخلیق کرنا، لیب میں پیدا ہونے والا گوشت اور حال ہی میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا آسمانوں کی طرف سفر کرنا تاکہ قدرتی رازوں کا سراغ لگایا جا سکے اور اس کے علاوہ بہت کچھ ایسا پوشیدہ ہے جس کا انکشاف ابھی ممکن نہیں اور وقت آنے پر آشکار ہوتا چلا جائے گا۔

یہ کافر لوگ خدائی معاملات میں مداخلت پہ مداخلت کیے جا رہے ہیں۔ ایک مومن کا دل ہی تو ہوتا ہے جو انوار و تجلیات کا مرکز ہوتا ہے اور اب وہاں سور کا دل لگانے کا سوچا جا رہا ہے جو کہ ہماری فکر کے مطابق انتہائی نجس جانور اور اس کا گوشت کھانے سے درندگی پیدا ہوتی ہے مگر یہاں تو اس“ ناسور ”کے دل سے فائدہ اٹھانے کی باتیں چل پڑی ہیں اب ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ ہمارے لیے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا دامن تحقیق سے خالی ہے اور ہمارا مجموعی ورثہ“ خوش بیانیوں ”کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر کب تک صرف زبان کی حد تک خود کو زمانے کا ہم عصر بنانے کے لیے ہم“ جوازی ٹانکے ”لگاتے رہیں گے؟ ہماری روایتی فکر پر آج سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ چند سائنسی انکشافات سے ہم آج اتنا سٹپٹا گئے ہیں اور آنے والے وقت میں یقینی طور پر ایسے انکشافات بھی سامنے آسکتے ہیں جس کا جواب ہمارے پاس شاید شرمندگی کے علاوہ کچھ نہ ہو ہمیں اس وقت کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے پاس کوئی“ پلان بی ”ہے؟ یا صرف ہٹ دھرمی سے ہی کام چلاتے رہیں گے مگر سوال پھر وہی ہو گا کہ آخر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments