زندگی کی سرگزشت


دنیا کتنی حصول پرست بن چکی ہے۔ اگر کوئی ان حصولوں کے مد مخالف کھڑا ہو جائے تو ساری دنیا اس کو زمین بوس نہ کریں تو آرام دل سے کوئی بیٹھے گا نہیں۔ اگر دنیا سے چلنا ہے تو اپنی آنکھیں نیچے رکھیں گردن کو جھکا کر رکھیں کیونکہ یہاں گردن کو اوپر کرنا ایک گناہ تصور ہوتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بے شرمی سے اپنی زندگی کی چاروں دنوں کو گزاریں۔ یہاں دنیا کی مرہون منت سے زندہ ہونا پڑتا ہے اب ایسا کوئی ماں کا لعل پیدا نہیں ہوا ہے کہ دنیا سے مخاطب ہو کر اسے پونچھیں کہ یہ رواج جو آپ نے اوڈ رکھی ہے یہ کس کی ہے؟ آپ کی رواجوں سے ہم واقف ہے۔ پہلے آپ اتنے خود پرست نہیں تھے کہ اب نظر آرہے ہوں۔

”دل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی“

زندگی سے مجھے کوئی شکوہ نہیں ہاں دنیا سے مجھے بہت سارے شکایت ہے میں کہتا ہوں کہ میرے پاس دنیا کی شکایت کی انبار ہیں اگر ایک شکوہ ظاہر کروں تو اس میں سے ہزار شکوہ جنم لیتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان صفحے کو یہاں سے بند کر دیں۔ لیکن دل چاہتا ہے آج ٹوٹ پڑو جتنا سچ کہہ سکتے ہو کہو پھر سوچتا ہوں کہ میری تلخ باتوں کو دنیا گلا نہ کریں ہمیں اس جہاں ہستی سے نست و نابود نہ کریں۔ یار اس دل پر شگافیں پڑی ہیں۔ اتنی محرومیاں کیوں؟ بقول ساحر لدھیانوی کے ساحر نے تو پھر بھی اپنا بار ہلکا کر دیا ہے اس نے تو دنیا کو اپنا قرض دار بنایا تھا اب مجھے پتہ نہیں میں کب اپنا قرض ادا کر پاؤں گا یا نا؟

دنیا نے تجربات و حواث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا وہ لوٹا رہا ہوں میں

کیوں؟ ہم اتنے درد، تکلیف، مصیبتیں سہ رہے ہیں۔ اگر ہاتھ باند کر اپنی بہتری کے لیے دعا کریں تو کس سے عرش یا فرش سے؟ آخر کوئی مجھے کیوں اتنی اہمیت دیں؟ سوال تو یہاں واقعی بنتا ہے۔ لیکن جواب کے لیے وقت مجھے درکار ہے۔ فوراً جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ بہر حال زندگی تو ملی خوش باش، دل سیر ہوئے زندگی کی عشرتوں سے کیوں خواہ مخواہ زندگی سے بیزار ہو کر اس کے خلاف بولو۔ مجھے شکایت دنیا سے ہے۔

اپنے لوگوں سے بھی کوئی شکوہ نہیں۔ لوگ کیا کر سکتے ہیں لوگوں کی کام مسرتوں کو قبض کرنا ہیں، یک دوسروں کو بلاوجہ نیچے دکھانا بدکردار لوگ تو بد مزاجیت کے مارے دوسروں کو بھی اپنی نظروں سے گرانے کے سعی کر رہے ہے۔ میں کسی سے شکایت نہیں بس وقت اور دنیا سے ہیں وقت بھی تو دنیا ہی ہے۔ کچھ الفاظ میں دنیا کی دہلیز پر آویزاں کرنا چاہتا ہوں کہ میرے بعد جو لوگ اس راستے میں سفر کریں تو کم ازکم انہوں کو یہ تو ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ ہم میں سے پہلے بھی ایک شخص دنیا سے شکست کائی ہوئی یہاں سے گزارا ہے۔

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

ملک جان کے ڈی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک جان کے ڈی

ملک جان کے ڈی بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب کا مطالعہ، ادبی مباحث اور ادب کی تخلیق ملک جان کے ڈی کا اوڑھنا بچھونا ہیں، جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں

malik-jan-k-d has 15 posts and counting.See all posts by malik-jan-k-d

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments