وقت کے امکانات کا شاعر۔۔۔۔عامر عبداللہ


عامر عبداللہ کی نظمیں (مشمولہ “اجلی کرن کی پگڈنڈی پر”) ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔وہ اپنی نظموں میں ایک ایسا دائرہ تشکیل دیتے ہیں جس کا مرکزی نقطہ وقت ہے۔اس دائرے کے ان گنت نقاط ہیں جو اپنے وجود میں کائناتی وسعتوں اور وقت کو اس کے تمام تر امکانات کے ساتھ سمیٹے ہوئے ہیں۔اس دائرے کی متعین حدود کے اندر بیک وقت کئی ذیلی دائرے بنتے اور بکھرتے رہتے ہیں جن سے ایک دھندلا منظر تشکیل پاتا ہے ۔جس کو عامر عبداللہ اپنے اجلے اسلوب سے نمایاں کرتے ہیں ۔
واضح رہے کہ بڑے دائرے کے اندر بننے والے تمام ذیلی دائرے بڑے دائرے کے مرکزی نقط سے پھوٹتے ہیں جو رفتہ رفتہ بڑے دائرے کی حدود اور اس کے مرکزی نقط کے درمیان خلا کو پر کر کر دیتے ہیں ۔جس سے وقت کا تجریدی ہیولا وجود میں آتا ہے ۔جس پر عامر عبداللہ اساطیری علامتوں کے ذریعے پگڈنڈی بناتے ہیں۔عامر عبداللہ اس پگڈنڈی پر اکیلے سفر نہیں کرتے بلکہ قاری کو بھی اس سفر میں شریک کرتے ہیں اور اس پر وقت کے تمام امکانات روشن کرتے ہیں ۔
دراصل عامر عبداللہ بڑے دائرے اور اس میں بننے والے ذیلی دائروں کو زمانی وحدت میں ڈھال کر ایک نامیاتی کل بناتے ہیں ۔جس وجہ سے ان کی نظموں میں وقت حیاتیاتی کل کی صورت میں ملتا ہے۔عامر عبداللہ کی نظموں کے تمام موضوعات اسی حیاتیاتی کل سے جنم لیتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عامر عبداللہ کا تخلیقی عمل پچیدہ ، پر اسرار،اور تہ دار ہے ۔لیکن وہ نظموں میں ابہام پیدا نہیں کرتے بلکہ معنی اور مفہوم کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔ انھوں نے نظموں کی تخلیق کے دوران جدیدیت کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اساطیری علامات کو بڑی چابکدستی سے برتا ہے ۔جس وجہ سے ان کی نظمیں بے معنویت سے محفوظ ہو گئی ہیں ۔میری اس بات کی تصدیق “اجلی کرن کی پگڈنڈی پر”کے فلیپ (نصیر احمد ناصر) سے بھی ہوتی ہے۔
عامر عبداللہ کی ذات کا کرب وقت کے دھارے سے پھوٹتا ہے ۔جس کو وہ اپنی نظموں میں اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ کرب ان کی ذات کی حدود تجاوز کرکے متوسط طبقے کی محرومیوں ،مجبوریوں اور مایوسیوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔بڑے شاعر کی یہ پہچان ہوتی ہے وہ ہمیشہ اپنی ذات کے آشوب سے بلند ہو کر سوچتا ہے ۔جس سے وہ پوری دنیا کے انسانوں کی آواز بن جاتا ہے ۔عامر عبداللہ بھی بڑے شاعر ہیں ۔ان کی نظمیں آفاقیت کی حامل ہیں جو اپنے تخلیقی عہد کے سائنسی ،میکانکی،سماجی اور طبقاتی مسائل اور فرد کے ادھورے پن کو بڑی عمدگی سے بیان کرتی ہیں ۔موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی تشخص کا مسئلہ ہے ۔سائنسی اور ٹیکنالوجی کی برق رفتاری نے فرد کو ان گنت سایوں میں تحلیل کر دیا ۔جس سے فرد کی حیثیت محض پرچھائی کی رہ گئی ہے۔اس نارسائیت کا بھرپور احساس عامر عبداللہ کے ہاں ملتا ہے ۔ان کی نظموں کے مطالعہ سے یہ احساس بار بار اجاگر ہوتا ہے کہ فرد کا تشخص وقت کے دھارے کے ساتھ بہ گیا ہے۔جو فرد کا چہرہ ہمیں نظر آ رہا ہے یہ تو محض ایک بہروپ ہے ۔عامر عبداللہ انسان کا اصلی روپ دریافت کرنے کے لیے وقت کے تسلسل پر بڑی کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔وہ ایک صوفی سالک کی طرح وقت کے ہر لمحے کو اسم اعظم جان کر اسے اپنی ذات پر وارد کرتے ہیں ۔جس وجہ سے ان کے ہاں موجود اور ناموجود کی کشمکش متشکل ہو گئی ہے۔
عامر عبداللہ کے ہاں وقت کی تجریدی صورت ملتی ہے ۔وہ اس کی تجسیم کرنے کی بجائے اس کی روانی دیکھاتے ہیں ۔جو تسلسل کے ساتھ کن فیکون کے ذریعے نقش مٹاتا اور بناتا رہتا ہے۔عامر عبداللہ وقت کی تجریدیت میں پوشیدہ زمانوں کو امیجری کے ذریعے پیش کرتے ہیں جس سےان کے فنی کمال ،اعلی تفکراور تخیل کی عکاسی ہوتی ہے۔
عامر عبداللہ کے ہاں وقت ایک دیوتا کا روپ ہے۔ جو سمیریوں کے خاندانی دیوتا سے اس لحاظ سے مماثلت رکھتا ہے کہ وہ مندر یا بت سے پاک ہے۔عامر عبداللہ کی نظمیں وقت کو اساطیری کہانیوں کی طرح ماورائی قوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔جو کائنات کے ذرے ذرے کو اپنے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے۔اس حوالے سے عامر عبداللہ کی طویل نظم “میں آگیا۔۔۔”کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ان کی یہ نظم فرد کی بے بسی ،بے حسی اور اس کی عدم تکمیلیت سے تکمیلیت تک کی سیاحت ہے۔عامر عبداللہ نے اس نظم کا خمیر اساطیری کہانیوں اور داستانوی عناصر سے اٹھایا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments