شبیر حسین گھمن: چند یادیں چند باتیں


شبیر حسین گھمن سے میری آشنائی کوئی چار دہائیاں پہلے ہوئی تھی. جو آہستہ آہستہ گہری دوستی میں تبدیل ہوتی چلی گئی. گجرات کے محلہ  فیض آباد میں ہمارے گھر سے کوئی دو گلیاں چھوڑ کر ان کا کریانہ سٹور تھا. جو ان کے بڑے بھائی غلام رسول کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا. ان دنوں  ہمارے ہمسائے میں بلکہ پورے محلے میں دو ہی بڑے کریانہ سٹور ہوتے تھے. ایک مہر یوسف دکاندار کا اور دوسرا شبیر حسین اور اس کے بھائی غلام رسول کا.
یوسف صاحب تو کئی سال پہلے وفات پا چکے ہیں. ان کی وفات کے ساتھ ہی ان کا سٹور بھی ختم ہو گیا تھا. مگر دونوں بھائیوں غلام رسول اور شبیر حسین کا سٹور ابھی بھی اُسی جگہ پر موجود ہے.
دونوں بھائیوں شبیر حسین اور غلام رسول کا تعلق بنیادی طور پر گجرات سے ملحقہ گاؤں گھمن سے تھا. موضع گھمن سے گجرات شہر کے ایک محلہ میں آ کر کریانہ سٹور کھولنے کی کہانی مجھے شبیر نے کچھ عرصہ پہلے سنائی تھی. ان کے بقول ان کے بڑے غلام رسول پاک فوج میں تھے. جب وہ 70ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان کے محاظ پر لڑتے ہوئے دیگر فوجیوں (90 ہزار)  کے ہمراہ بھارت کی قید میں چلے گئے. قید کاٹ کر دیگر فوجی جوانوں کے ہمراہ ان کی واپسی ہوئی. واپسی کے کچھ عرصے بعد ان کی فوج سے رئٹائرمنٹ بھی ہو گئی.
رئٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے اوپر فیملی کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا. غلام رسول اپنی اور فیملی کی روزی روٹی کے لیے کچھ اور کرنا چاہتے تھے. 1970ء کے وسط میں وہ اپنے کسی جاننے والے کو ملنے محلہ فیض آباد آئے. جن سے کچھ کام کرنے سے متعلق تبادلہء خیال ہوا. بعدازاں انہیں یہ علاقہ پسند آ گیا. انہوں نے ایک گلی کی نکر پر دکان کرائے پر لے کر “غلام رسول کریانہ سٹور” کا آغاز کر دیا.
انتہائی محنتی دونوں بھائی اپنے حُسنِ سلوک،اخلاق، اور ملنسار ہونے کی وجہ سے محلے والوں کے دلوں میں جلد ہی گھر کر گئے. آہستہ آہستہ سٹور بھی ترقی کرتا چلا گیا. شبیر حسین کی ڈیوٹی بڑے بھائی نے یہ لگائی کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر اپنے گاؤں سے سائیکل پر دودھ لایا کرے گا. تاکہ محلے والوں کو بہتر اور تازہ دودھ دہی مل سکے. اور اس طریقے سے دکان بھی بہتر  طور پر چلے گی. گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا آندھی، شبیر نے بڑے بھائی کے حکم پر یہ فریضہ بڑی باقاعدگی اور عمدگی سے نبھایا.اس نے  اپنے کام سے کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا. نوجوان شبیر صبح چار بجے اٹھ کر سائیکل پر گاؤں جاتا اور دودھ لے کر واپس آتا. اکثر اسے اس مقصد کے لیے دو پھیرے بھی لگانے پڑتے.
مجھے یاد ہے کہ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں غلام رسول/ شبیر کی دکان کے دودھ اور دہی کی خوب مانگ تھی. اکثر لوگ رات کو ہی اپنے برتن دکان پر چھوڑ جاتے تھے کہ کہیں ہماری باری آنے تک دودھ دہی ختم ہی نہ ہو جائے. کوئی دو ماہ پہلے میں امریکہ سے پاکستان گیا ہوا تھا. اس دوران شبیر سے اپنے گھر دو دفعہ تفصیلی ملاقات ہوئی. اس موقع پر پرانے مشترکہ دوست ندیم شریف، اور انگلینڈ سے آئے ہوئے سید طاہر رضوی بھی موجود تھے. شبیر ہمارے ہاں اپنے بھتیجے اور غلام رسول کے صاحبزادے کفیل کے ہمراہ آئے.
آتے ہی کہنے لگے کہ کمر کے مہرے میں کچھ درد ہے.تھوڑی دیر پہلے ہی وہ راولپنڈی سے ایک نیورسرجن بریگیڈیئر ڈاکٹر کو دکھا کر واپس آئے ہیں. تکلیف کے باوجود میں آپ سے ملاقات ضروری خیال کرتا ہوں. ہم ایک دوسرے کو برسوں بعد ملے تھے. اس موقع پر پرانی  باتیں اور یادیں خوب تازہ کی گئیں.
میں نے اس موقع پر ازراہِ تفنن ہنستے ہوئے شبیر سے کہا کہ “تم نے کوئی بیس سال کے دوران دکان کے لیے پہلے سائیکل اور بعدازاں موٹرسائیکل پر ٹنوں کے حساب سے دودھ ڈھویا ہے. کمر میں درد تو اب اس عمر میں نکلنا ہی تھا”. اس بات پر شبیر سمیت سبھی دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا. اور خوب محظوظ ہوئے. میں نے مزید کہا کہ شبیر یار!” ہم تو آپ کی دکان کا دودھ اور دہی کھا کر جوان ہوئے ہیں. بلکہ آدھے محلہ کی تین نسلیں آپ ہی کی دکان کا دودھ پی کر پلی بڑھی ہیں”.
شبیر میری باتوں پر خوش ہو کر مسکراتے رہے.اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے کہ “واقعی انہوں نے دودھ  لانے کے لیے بہت سخت ڈیوٹی دی ہے. سردیوں کی راتوں میں صبح چار بجے گرم بستر سے اٹھنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا تھا”. میں نے ماحول کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے شبیر سے سوال کیا کہ “لائے جانے والے دودھ میں وہ “مسالحہ” (پانی) کتنا ڈالتے تھے؟ کے جواب میں شبیر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ “قسم والی بات ہے کہ انہوں نے دودھ میں پانی کبھی نہیں ڈالا. جن سے دودھ وہ لے کرآتے تھے ان کی قسم وہ نہیں دے سکتے”. میری فرمائش پر اس موقع کی ہمارے کزن ظہیر نے گروپ فوٹو بھی بنائی. اور یوں رات گئے یہ یادگار محفل برخاست ہوئی.
رواں ہفتے محلے کے سابق نائب ناظم حاجی تنویر حسین کے فیس بک پیج پر یہ خبر پڑھ کر کہ”محلے کی ہردلعزیز شخصیت حاجی شبیر حسین اب ہم میں نہیں رہے”، سخت دھچکا لگا اور شبیر کی یاد میں دل دکھ سے بھر گیا.
شبیر کے بڑے صاحبزادے عمر سے بات ہوئی تو انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ “ان کے والد کو کچھ عرصہ پہلے سینے میں درد محسوس ہوا تھا، گجرات کے ایک ڈاکٹر کو چیک کروایا تو انہوں نے کچھ ادویات تجویز کیں. وہ ایک دو دن تک انہیں کسی دوسرے شہر میں لے جا کر ان کا مکمل چیک اپ کروانے والے تھے. لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا. اپنے والد کی وفات والے دن وہ اپنے کسی محکمانہ کام کے سلسلے میں لاہور گئے ہوئے تھے”.
20 مارچ، 2022ء بروز جمعرات کی صبح وہ مسجد میں فجر کی نماز پڑھ کر حسبِ معمول واک کرنے چلے گئے. واک کے بعد گھر واپس آئے. تو کمرے میں آ کر بیٹھ گئے. وہیں بیٹھے بیٹھے انہیں انتہائی شدید قسم کا پہلا اور آخری ہارٹ اٹیک ہوا. جس سے جانبر نہیں ہو سکے، اور آناً فاناً ان کی موقع پر ہی وفات ہو گئی.
گھر میں ان داماد موجود تھے جو انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہے. تاہم اسی اثناء میں ایمرجنسی 1122 کو کال کی گئی. جنھوں نے آ کر ان کے انتقال کی تصدیق کر دی. انتقال کے وقت شبیر حسین کی عمر 58 برس تھی. انہیں بروز جمعہ 21 جنوری 2022ء کو دارہ گلاب شاہ قبرستان گجرات میں سپردِ خاک کر دیا گیا. اللہ تعالیٰ اُسے غریقِ رحمت کرے. آمین.
شبیر نے کئی سال پہلے دکان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے پراپرٹی کا کام شروع کردیا تھا. جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب نوازا.  ہر معاملے میں انہوں نے بڑے بھائی کو ساتھ رکھا. اور اپنے انجنئیر بھتیجے کفیل کے ہمراہ کاروبار کو خوب آگے بڑھایا.
دونوں بھائیوں کے گھرانے کا مثالی اتفاق محلے بھر میں مشہور تھا. دونوں بھائیوں کی بیویاں بھی آپس میں سگی بہنیں ہیں. انہوں نے ایمانداری اور سخت محنت کو اپنا شیوہ بنایا. چند سالوں میں  اس کاروبار سے انہوں بہت کمایا. دکان اور اس کے ساتھ والی جگہ خریدنے کے علاوہ محلے میں انہوں نے دو شاندار ایک جیسی رہائش گاہیں بنائیں. شبیر گجرات میں مختلف جگہوں پر رقبے خرید کر پلاٹ بنا کر فروخت کر دیتے. خود اپنے منہ سے اللہ کے دیئے ہوئے کشادہ رزق کا کھلے دل سے شبیر حسین اعتراف کرتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے.
سالوں پہلے کی بات ہے ابھی شبیر پراپرٹی کے بزنس میں نہیں آئے تھے، تاہم ان کا کریانہ سٹور بھی خوب چلتا تھا. میں نے دونوں بھائیوں کو “سیٹھ” کہنا شروع کر دیا. جو بعدازاں محلے بھر میں مشہور ہو گیا. اور آہستہ آہستہ باقی لوگوں نے بھی انہیں اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا. اور بعدازاں سیٹھ دونوں بھائیوں کے نام کا حصہ بن گیا.
شبیر خود تو اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے. مگر انہیں اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بے حد شوق تھا. اس سلسلے میں ان کی اہلیہ کی تعلیم کام آئی. وسائل شبیر مہیا کرتے رہے. بڑے بیٹے کو انہوں نے پٹرولیم انجنئیرنگ میں ڈگری دلوائی. اور وہ آجکل او جی ڈی سی میں اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہے. چھوٹا بیٹا عثمان ہالینڈ (نیدرلینڈ)  کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹر ڈگری کر رہا ہے. بیٹی کو ایم اے انگلش کروایا. جس کی انہوں نے دو سال پہلے شادی کر دی تھی.
شبیر سے میرا ایک بڑے احترام اور دوستی کا رشتہ تھا. وہ اکثر مجھے کال کرتا رہتا تھا. بچوں کی تعلیم اور دیگر معاملات میں بھی مشورہ کر لیتا تھا. 17 جنوری کو اس کی مجھے امریکہ میں آخری کال آئی. جو میں سونے کی وجہ سے نہ لے سکا. ایک آدھ دن میں، میں انہیں کال کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ان کی وفات کی اطلاع آ گئی. ایک مخلص، اعلیٰ اور وضعدار انسان کے دینا سے چلے جانے کا بہت دکھ ہوا.
شدت سے چاہے جانے والے اپنے پیارے مٹی کی تہوں میں رزقِ خاک ہو کر بھی اپنے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں. آفتاب جاوید نے کیا خوب کہا ہے کہ
“مجھ سے
مرنے والوں کے نمبر
ڈیلیٹ نہیں ہوتے
میرا موبائل
قبرستان بنتا جا رہا ہے”.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments