کیا وزیر اعظم بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں؟


ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمہ پر اظہار خیال کیا ہے اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کے معاملہ کو مسلم لیگ (ن) کی سازش اور عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے۔ وزیر خارجہ نے یہ باتیں قومی اسمبلی کے فلور پر کی ہیں، شاید اس لئے قانون کی دسترس سے ماورا ہوں لیکن وزیر اعظم نے ایسی ہی گفتگو اپنے ترجمانوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس میں کی ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اس طرح کون عدالت پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

حیرت ہے کہ اس معاملہ کے کس پہلو پر زیادہ تشویش و پریشانی کا اظہار کیا جائے۔ کیا ایک سابق جج کے بیان حلفی کے معاملہ کو قومی اسمبلی میں موضوع بحث بنا کر ملک میں انصاف اور آزاد عدلیہ کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔ ملک کا وزیر خارجہ ایسی گفتگو سے اپوزیشن کے ساتھ سیاسی حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ یہ غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ جس معاملہ پر تند و تیز بیان جاری کیا جارہا ہے، وہ معاملہ ابھی تک عدالت کے زیر غور ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بیان حلفی کی بنیاد پر خبر شائع کرنے کے معاملہ پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ہوئی ہے۔

 بنیادی اصول قانون کے مطابق کوئی بھی ذمہ دار عہدیدار کسی بھی عدالت میں زیر سماعت کسی معاملہ پر گفتگو سے گریز کرتا ہے کیوں کہ اس طرز عمل کو عدالت پر اثر انداز ہونے کا طریقہ سمجھا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ طرز عمل ججوں کی ’رہنمائی‘ کی کوشش تصور ہوتا ہے کیوں کہ اصولی طور پر کوئی عدالت صرف میرٹ اور حقائق کو قانون کی روشنی میں دیکھتے ہوئے کسی معاملہ پر فیصلہ صادر کرتی ہے۔ لیکن جج بھی اسی سماج کا حصہ ہوتے ہیں اس لئے عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر بات یا تبصرہ کرنے سے گریز، قانون کی حکمرانی کا بنیادی اور اہم ترین اصول ہے۔ لیکن انصاف کی عمل داری کی دعویدار جماعت تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ یکساں طور سے اس اصول کو نظر انداز کرنے کا سبب بنے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دو بنیادی باتوں پر بات کی۔ پہلے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کی بہتری معاشی منصوبنہ بندی اور کارکردگی کی وجہ سے ملکی معیشت رو بہ اصلاح ہے۔ حکومت نے سخت فیصلے کئے لیکن اب ان کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ قومی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہؤا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے بعد قومی پیداوار اب ساڑھے پانچ فیصد کے لگ بھگ ہوگی جو مسلم لیگ (ن) کے دور کی پانچ فیصد اضافہ کی شرح سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ کا کریڈٹ بھی تحریک انصاف کی حکومت کو دیا اور دعویٰ کیا کہ اس طرح پاکستان کو مشکلات سے نکال لیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ کے یہ بلند بانگ دعوے اپنی جگہ لیکن سوال تو صرف اتنا ہے کہ یہ بہتری دیگر معاشی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کو کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ یا اگر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں تو عوام کو یہ خوابناک حالات کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت کے وزرا بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نت نئے عذر تراشتے دکھائی دیتے ہیں اور وزیر اعظم یہ کہہ کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مہنگائی تو بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوئی ہے۔

معیشت کے بارے میں وزیر خارجہ کی خوشگوار باتوں کی بنیاد گزشتہ روز قومی کاؤنٹس کمیٹی کے منظور کردہ اعداد و شمار تھے۔ این اے سی کے اجلاس میں قومی پیداوار کی شرح پانچ اعشاریہ چار فیصد بتائی گئی تھی۔ اس کے بعد عمران خان نے بھی ایک ٹوئٹ میں خود کو اور اپنی حکومت کو اس کامیابی پر شاباش دی تھی اور شاہ محمود قریشی بھی قومی اسمبلی میں لچھے دار گفتگو میں خوشنما باتیں کرتے دکھائی دیے ۔ گو کہ سرکاری اعداو شمار کو کئی طریقوں سے پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے اعداد و شمار عام طور سے ایک سیاسی بیانیہ بنانے یا قرض دینے والے اداروں کے سامنے معیشت کی بہتر تصویر پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور جب ان پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو بند کمرے کے اجلاسوں میں کچھ اعتراف تو کرلئے جاتے ہیں لیکن حکومتی نمائیندے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

قومی اکاؤنٹس کمیٹی نے اس اجلاس میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 ہزار 200 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی گزشتہ سال ملک میں فی کس سالانہ آمدنی کا تخمینہ 2 لاکھ 46ہزار414تھا لیکن اب یہ آمدنی بڑھ کر 2 لاکھ 66ہزار 614 روپے ہوگئی ہے۔ ان اعداد و شمار کا اگر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر سے موازنہ کرکے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جاناجاسکتا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران ڈالر کی شرح اوسطاً 165 روپے پر تھی۔ اس طرح گزشتہ سال سرکاری تخمینہ کے مطابق فی کس آمدنی 1500 ڈالر سے کم رہی تھی۔ اس سال جو اضافہ دکھایا گیا ہے، وہ درحقیقت ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح میں ہی برابر ہو جاتا ہے۔ یعنی نظر ثانی شدہ فی کس آمدنی ڈالر کی موجودہ اوسط 175 روپے کی شرح کے حساب سے 1523 ڈالر بنتی ہے۔ ملک کے متعدد ماہرین اور منی ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے تحت عائد کئے گئے نئے محاصل کی وجہ سے ڈالر کی شرح دو سو روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر ڈالر روپے کے مقابلہ میں اتنا مہنگا ہوگا تو قومی فنانس کمیٹی کی نظر ثانی شدہ فی کس آمدنی درحقیقت 1333 ڈالر فی کس رہ جائے گی۔ جو ملک کے شہریوں کی آمدنی میں واضح کمی کا اشارہ ہوگا۔ آمدنی کی یہ شرح افغانستان اور افریقہ کے غریب ترین ممالک کے علاوہ کم ترین آمدنی کی حد میں ہے۔

معیشت کے علاوہ قومی اسمبلی سے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم کے بیان حلفی کے حوالے توہین عدالت کے معاملہ پر بھی اظہار خیال کیا۔ اس سے قطع نظر کہ عدالت میں زیر سماعت مقدمہ پر رائے دینا بنیادی اصول قانون کے خلاف ہے، حکومتی نمائیندے اس میں مسلم لیگ (ن) کو ملوث کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رانا شمیم نے یہ بیان حلفی اصل واقعہ کے تین سال بعد دیا تھا جو ان کی بد نیتی کو ظاہر کرتا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح مسلم لیگ نے زیر سماعت مقدموں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر رانا شمیم کا بیان حلفی عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش تھا تو شاہ محمود قریشی اور عمران خان اس معاملہ پر بیان بازی کے ذریعے کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

یہ بات تو عدالت میں طے ہوگی کہ یہ بیان حلفی یا اس کی اشاعت کس حد تک عدالت پر اثرا نداز ہونے کی کوشش تھی۔ تاہم یہ سچ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ رانا شمیم عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام تر دباؤ اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سخت سوالوں کے جواب میں بھی اس بیان حلفی کے متن اور اس میں بیان کئے گئے حقائق سے منحرف نہیں ہوئے۔ ان کا اب بھی دعویٰ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے گلگت کے دورہ کے دوران ان کی موجودگی میں ہائی کورٹ کے ایک جج سے فون پر بات کی اورانہیں نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل ضمانت پر رہا نہ کرنے کی ہدایت دی۔ یہ بیان ایک شخص کا بیان ہے اور وہ اب عدالت میں اس کی تصدیق کررہا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے علاوہ حکومت کا مفاد اس میں ہونا چاہئے کہ اس بیان میں بتائے گئے ایک واقعہ کو غلط ثابت کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ رانا شمیم کی طرف سے اس معاملہ کی تحقیقات کروانے کی درخواست مسترد کرچکی ہے کیوں کہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ثاقب نثار ان کا مسئلہ نہیں ہیں۔ انہیں اپنی عدالت کے اعتبار اور شہرت سے غرض ہے۔ لیکن حکومت اور ثاقب نثار کو تو یہ فکر ہونی چاہئے کہ ملک کے ایک سابق چیف جسٹس پر فیصلوں پر اثار انداز ہونے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا جارہاہے لیکن ثاقب نثار اس کی تردید کرکے اپنی ذمہ داری سے عدہ برا ہوچکے ہیں اور حکومت اس پر سیاست کرنے میں مصروف ہے۔ حالانکہ اصل حقائق سامنے لانا اور اس معاملہ میں جھوٹ بولنے والے کو کیفر کردار تک پہنچانا اصل مقصد ہونا چاہئے۔

شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی رانا شمیم کیس پر تبصرہ کیا ہے اور اسے مسلم لیگ (ن) کی عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی سازش قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے اپنے ترجمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف اور مریم نواز کے کیس کی سماعت کرنے والی عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لیے حلف نامے کا تنازع کھڑا کیا۔ وہ مافیا ہیں اور جب انہیں لگتا ہے کہ عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے والی ہیں تو وہ ہمیشہ ان پر اثر انداز ہوتے ہیں‘۔ ترجمانوں کو بریفنگ میں وزیر اعظم نے مسلم لیگی لیڈروں پر تنقید پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ’ عدالت نے یہ بے نقاب کرکے کہ رانا شمیم کا بیانِ حلفی نواز شریف کے دفتر میں تیار کیا گیا تھا، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی سازش سے پردہ اٹھادیا ہے‘۔ واضح رہے کہ یہ خبر ایک پاکستانی روزنامہ نے شائع کی تھی کہ اس بیان حلفی پر لندن میں نواز شریف کے دفتر میں دستخط اور تصدیق ہوئی تھی۔ بعد میں ایک دوسرے اخبار نے متعلقہ نوٹری پبلک کے حوالے سے اس خبر کو غلط قرار دیا تھا۔ اس معاملہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کے کوئی ریمارکس سننے میں نہیں آئے۔

اب ملک کا وزیر اعظم نہ صرف ایک زیر سماعت مقدمہ میں ببانگ دہل رائے کا اظہار کرتے ہوئے ایک خاص فیصلہ صادر کررہا ہے بلکہ ایک صحافی کی’ تحقیق کا کریڈٹ‘ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو دے رہا ہے۔ بیان حلفی پر ملکی میڈیا کو صحافتی اصول یاد کروانے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کیا وزیر اعظم کی طرف سے عدالتوں کو سنسنی خیزی کا مرکز بنانے کے اس معاملہ کا نوٹس بھی لیں گے یا ایک سابق جج کو سزا اور صحافیوں کو تنبیہ ہی کافی ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments