”اہم شخصیت“ سے ”خفیہ ملاقات“: حقیقت یا فسانہ؟


ہمارے دوست فواد چوہدری ہیں تو عمرانی حکومت کے ترجمان ہیں لیکن بعض اوقات وہ دور کی کوڑی لاتے ہیں اور ایسی ”خبر“ چھوڑتے ہیں کہ ”کپتان“ بھی عش عش کر اٹھتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو حکومتی فیصلوں اور کارکردگی سے آگاہ کریں لیکن وہ وہ اپنی زیادہ توجہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے معاملات پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ”حکومتی کارکردگی“ ہو گی تو وہ بے چارے بیان کریں گے۔ لہذا ہر روز ان کی گفتگو کا آغاز نواز شریف سے ہوتا ہے اور ان ہی پر ختم ہوتا ہے۔

ان کی دیکھا دیکھی دیگر نام نہاد ترجمان جن کا کوئی سیاسی کیئریر نہیں بھی اپنی حاضری لگاتے ہیں اور ”کپتان“ خوش کرنے کے لئے عجیب و غریب انداز میں بیان بازی کرتے ہیں۔ ہمارے نصف صدی پرانے دوست شیخ رشید احمد بھی اپنے منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے لئے نواز شریف اور شہباز شریف پر ہلکی پھلکی ”گولہ باری“ کرتے رہتے ہیں۔

برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے کیا ملاقات کر دی شیخ رشید احمد پھولے نہیں سماتے۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ ملاقات میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کی واپسی کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے اور دستخط کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ گویا برطانیہ نواز شریف کو حکومت پاکستان کے حوالے کر دے گا۔ یہ ملاقات اس وقت کی گئی جب حکومتی ڈھنڈورچی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے نواز شریف کی واپسی بارے میں کوئی نہ کوئی ”شوشہ“ چھوڑ رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کو نواز شریف کی وطن واپسی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان پچھلے کئی سالوں سے مجرموں کے تبادلے میں مذاکرات جاری ہیں جن کا تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ اس لئے حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا کہ برطانوی حکومت ایسا کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتی جس کے تحت اسے اپنے دیگر ”مہمان“ پاکستان کے حوالے کرنے پڑیں۔

برطانیہ اس نوعیت کے مذاکرات نواز شریف دور میں بھی کر چکا ہے لیکن بوجوہ اس بارے پیش رفت نہیں ہوئی عمران حکومت کی خواہش پر برطانیہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا جس کا واحد مقصد کسی نہ کسی طرح نواز شریف کی وطن واپسی ہو جائے۔ جب سے وفاقی وزارت داخلہ کا قلمدان شیخ رشید احمد کے پاس آیا ہے، ان کی ”پھرتیاں“ دیدنی ہیں۔ وہ اچانک متحرک ہو گئے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے وہ راتوں رات نواز شریف کو وطن واپس لے آئیں گے۔

وفاقی وزارت داخلہ کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ”مجرموں“ کے تبادلے کے معاہدے کے مسودے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کو حتمی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے۔ پاکستان جس معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ اس پر ابھی برطانوی حکومت سے مشاورت کی جانی ہے۔ عمران حکومت میں اس ایشو پر برطانیہ سے ڈیڈ لاک ہو چکا ہے

جون 2019 میں میاں نواز شریف لندن میں نہیں تھے۔ اس وقت پاکستان نے برطانیہ کو ”ایکسٹراڈیشن ٹریٹی“ کی پیش کش کی تھی۔ برطانوی وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ”برطانیہ ایسے ملکوں کے ساتھ مجرموں کے تبادلہ کا سمجھوتہ نہیں کرتا جن ممالک میں طالع آزمائی سے بار بار جمہوری حکمرانی ختم کی جاتی ہے۔“

پرویز مشرف کے دور میں تین وزرائے داخلہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو، جن کے خلاف 700 مقدمات درج ہیں، پاکستان واپس لا کر سزا دلوانا چاہتے تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں بھی اس معاہدے کو برطانیہ نے پذیرائی نہیں بخشی۔ شاہد خاقان عباسی بھی برطانوی حکومت سے مذاکرات کرتے رہے ہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی برطانیہ نے 99 ممالک سے ”ایکسٹراڈیشن ٹریٹی“ کر رکھا ہے لیکن پاکستان میں جمہوری عمل بار بار رکتا رہا جس کے باعث برطانیہ نے اس سے معاہدہ پر دستخط نہیں کیے۔

شیخ رشید احمد کے پاس جن دنوں وزارت ریلوے کا قلمدان تھا تو انہوں نے انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم نے نواز شریف کو لندن بھجوا کر غلطی ہوئی ہے۔ لہذا اب ان کو ہمارے لئے پاکستان واپس لانا ممکن نہیں“ سو اب انہوں نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے برطانوی ہائی کمشنر سے ”سیاسی مقاصد“ کے حصول کے لئے ملاقات کی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں ملکوں میں مجرموں کے تبادلہ کے معاہدوں پر عمل درآمد و دستخط بارے میں اتفاق رائے ہوا۔

اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسن چوہدری نے چار مسلم لیگی رہنماؤں کی ”اہم شخصیت“ سے ملاقات بارے ”درفنطنی“ چھوڑی ہے اور کہا کہ ان چاروں رہنماؤں نے ملاقات میں نواز شریف کو مائنس کر کے ان کے سر پر ”دست شفقت“ رکھنے کی استدعا کی ہے۔ فواد چوہدری نے ان چار مسلم لیگی رہنماؤں کا نام لیا ہے اور نہ ہی اس شخصیت کا نام ان کے لبوں پر آیا ہے جس بارے میں انہوں نے ملاقات کا دعویٰ کیا ہے اگرچہ انہوں نے مصلحتاً اس شخصیت کا نام نہیں لیا جس سے مسلم لیگی رہنماؤں کی ملاقات کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کا اشارہ جس شخصیت کی طرف ہے۔ ”داندگان راز“ سمجھ گئے ہیں۔ فواد چوہدری نے جس طرح کسی مسلم لیگی رہنما کا نام نہیں لیا اسی طرح اس شخصیت کے کوائف بتانے سے گریز کیا ہے جس سے ملاقات کا ”شوشہ“ چھوڑا ہے۔

البتہ فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس اہم شخصیت سے ملاقات کرنے والوں میں شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، احسن اقبال اور مفتاح اسماعیل کے نام لئے ہیں اور کہا ہے کہ ایک ”حاضر سروس“ سے ملاقات کی ہے چونکہ سب ہی ”تیر تکے“ لگا رہے تھے۔ لہذا ایک ترجمان نے خواجہ آصف کا نام بھی لے لیا ہے۔ اس اہم شخصیت سے ملنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ اس شوشے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سب ”مائنس ون“ کے فارمولے پر عمل درآمد کی صورت میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ پھر جواباً احسن اقبال بھی پی ٹی آئی پر حملہ آور ہوئے ہیں اور کہا ہے کہ ”پی ٹی آئی میں چار امیدوار عمران خان کی جگہ لینے کے لئے قطار میں کھڑے ہیں۔“ ایک کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جب کہ دوسرا جنوبی پنجاب سے ہے۔ تیسرا جہلمی ہے۔ انہوں نے چوتھے کے بارے میں کہا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان مفروضوں میں کوئی حقیقت نہیں محض ”لنگر گپ شپ“ ہے۔

عبوری وزیراعظم کا ”شوشہ“ چھوڑا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک تو وہ ہیں جنہوں نے حال ہی میں میاں نواز شریف سے لندن سے ملاقات کی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس دوڑ میں سب سے آگے سمجھتے ہیں جب کہ دوسرے کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے۔ تیسرے کا تعلق پوٹھوہار سے ہے جب کہ چوتھا کراچی کا رہائشی ہے۔ عجیب و غریب کہانی بنائی گئی ہے کہ عبوری وزیر اعظم کی فہرست میاں شہباز شریف کی منظوری سے بنائی گئی ہے۔ جب یہ فہرست میاں نواز شریف کے سامنے پیش کی گئی تو وہ ناراض ہو گئے یہ ایک حقیقت ہے ”مائنس ون“ کے فارمولہ کو میاں نواز شریف نے کبھی نہیں پذیرائی بخشی بلکہ جب ان کو نا اہل قرار دیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ”مائنس ون“ کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ انہوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ سیاسی منظر سے ہٹ جائیں تو ان کی جماعت کے بر سر اقتدار آنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو گی لیکن میاں نواز شریف نے اقتدار سے الگ ہونا تو قبول کر لیا لیکن نامناسب شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا وہ چار سال بعد کس طرح اس فارمولہ کو قبول کر سکتے ہیں؟

پچھلے پونے چار سال سے عمران حکومت نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نواز شریف کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکی آج بھی جتنے گیلپ سروے ہو رہے ہیں۔ ان میں یہ بتایا جا رہا ہے۔ شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ہی اکثریت حاصل کرے گی۔ یہی وجہ ہے۔ اگلے انتخابات سے قبل ”طاقت ور قوتیں“ مسلم لیگ (ن) سے معاملات طے کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کوششوں میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگی قیادت سے ”غیر سیاسی“ قوتوں کی ملاقاتیں اور رابطے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں کسی حد برف پگھلی ہے۔

میاں نواز شریف 27 نے ماہ سے زائد عرصہ سے لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور لندن میں بیٹھ کر موجودہ حکومت کی چھاتی پر مونگ دل رہے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف جیل میں ہوتے تو ممکن ہے۔ موجودہ حکومت ان کی ”سرگرمیوں“ پر کڑی نظر رکھتی اور ان سے اپنی شرائط منوانے کے لئے دباؤ ڈالتی لیکن اب میاں نواز شریف اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ میاں نواز شریف اس خطے کے سینئر ترین لیڈر ہیں۔ ان کے عالمی لیڈروں سے ذاتی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے حکمران کے مشیر نے ان سے ملاقات کی ہے جس کے بعد عمران خان نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ نواز شریف کی سزا ختم کرنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ امریکہ میں نواز شریف کا ”دوست“ جو بائیڈن صدر منتخب ہو گیا ہے جس نے ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی عمران خان کو اس بات کا بڑا قلق ہے۔ انہیں جو بائیڈن نے ملاقات تو دور کی بات ہے۔ رسمی علیک سلیک کے لئے ٹیلی فون تک نہیں کیا جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عمران خان امریکہ سرکار کی ”گڈ بک“ میں تھے۔

جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے۔ پچھلے پونے چار سال کے دوران دو تین ہفتے کے سوا ہر منگل کو وفاقی کابینہ کا باقاعدگی سے اجلاس بلاتے ہیں۔ کسی اجلاس کے ایجنڈے پر نواز شریف کا کوئی معاملہ شامل ہو نہ ہو ہر اجلاس کا موضوع گفتگو نواز شریف ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم جتنی تواتر سے ”ترجمانوں کے اجلاس“ بلاتے ہیں۔ شاید ہی کبھی انہوں نے معیشت کی بہتری پر کوئی اجلاس بلایا ہو۔ ترجمانوں کے اجلاسوں میں بھی میاں نواز شریف کو ہی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ نواز شریف ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

نواز شریف عمران خان کے اعصاب پر سوار ہیں۔ گزشتہ منگل کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تو اس میں باقاعدہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر بریفنگ دی گئی وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر جو سیاسی منظر سے غائب ہو جاتے ہیں پھر اچانک نمودار ہوئے ہیں۔ ان کے پاس بھی سیاسی مارکیٹ میں ”بیچنے“ کے لئے نواز شریف کے احتساب کے ”چورن“ کے سوا کوئی چیز نہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کابینہ کے ایک رکن نے سوال اٹھایا کہ میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی بیرون ملک واپسی کے لئے ضمانت دی تھی، اس سلسلے میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا۔ بیان حلفی کی خلاف ورزی پر حکومت کیا قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے؟

شہزاد اکبر جو اپنے آپ کو نواز شریف امور کے ”ایکسپرٹ“ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ”نواز شریف احتساب سے بچنے کے لئے بیرون ملک گئے ہیں۔ وہ پچھلے 27 ماہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ تا حال انہوں نے اپنا علاج نہیں کرایا انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے کے باوجود تاحال میڈیکل رپورٹس شیئر نہیں کیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سات سال کی سزا معطل کر کے 8 ہفتوں کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی اجازت دی نواز شریف کے واپس نہ آنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اشتہاری مجرم قرار دیا ہے۔“ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نواز شریف کی واپسی اور شہباز شریف کی ضمانت کے معاملات پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

شیخ رشید احمد جو کبھی میاں نواز شریف کے دستر خوان کے خوشہ چیں تھے۔ وہ بھی موقع محل دیکھے بغیر بھی شریف خاندان کے خلاف بیان بازی کر کے عمران خان کے دل میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انہوں تازہ ترین بیان داغا ہے۔ ”چاروں شریف ملکی سیاست سے مائنس ہیں۔ میاں صاحب آنا چاہتے ہیں۔ آئیں نہ آئیں وہ برسات کا انتظار کر رہے ہیں۔“ انہوں نے اگلے روز کہا ہے کہ ”پہلے شاید کوئی ’ڈھیل‘ کی بات چل رہی تھی۔ اب ڈیل ہو گی اور نہ ہی ڈھیل۔ عمران خان کے سر والا ہاتھ شریفوں کے سر نہیں گریبان پر آ سکتا ہے۔“

وزیر اعظم عمران خان نے بھی ترجمانوں کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”شریف فیملی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔“ موجودہ حکومت کی ”بے بسی“ کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان پر ”دست شفقت“ کی گارنٹی شیخ رشید احمد دے رہے ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے۔ ”نواز شریف مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے لئے رعایت مانگ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نواز شریف کا پتہ صاف کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ پہلی صف میں بیٹھنے والے لیڈر نواز شریف کی جگہ لینے کے لئے کوشاں ہیں۔“ ۔

فواد حسین چوہدری کی مفروضوں پر مبنی اطلاعات پر شاید ہی کوئی یقین کرے گا۔ پوری حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے تمام تر توجہ نواز شریف پر مرکوز کر رکھی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ (IPRO) کے تازہ ترین سروے نے پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہے۔ پنجاب میں 46 فیصد لوگوں کی اولیں ترجیح مسلم لیگ (ن) ہے۔ مسلم لیگی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔

میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی ڈیل کے خواہشمند ہیں اور نہ ہی ان کی جماعت کا کوئی عہدیدار ان کی اجازت کے بغیر اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کر سکتا ہے۔ حکومتی ترجمان آئے روز اس طرح کے شوشے چھوڑ کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میری ذاتی اطلاع کے مطابق میاں نواز شریف فوری طور پر نہیں آرہے سیاسی منظر پر تبدیلی اور عدالتی انصاف ہی نواز شریف کی جلد واپسی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments