وفاقی دارالحکومت کے اندر پتھر کے دور میں رہنے والے لوگ


کیا آپ 21 ویں صدی میں پتھر کے دور میں رہنے کا تصور کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں مگر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ایسی آبادی ہے جہاں پر لوگ پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس آبادی میں بجلی ’پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ شہر اقتدار کے اندر واقع اس آبادی کا نام ”رمشا“ کالونی ہے کہنے کو تو اسے مسیحوں کی کچی آبادی کہا جاتا ہے مگر سی ڈی اے کے کاغذات میں اسے ابھی کچی آبادی کا درجہ نہیں دیا گیا ہے ‘ کیونکہ یہاں کے مکینوں کے بقول کالونی میں ترقیاتی کاموں کے لئے جب وہ اپنے منتخب نمائندگان سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ چونکہ اس کالونی کو کچی آبادی کا درجہ نہیں دیا گیا ہے اس لئے ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز جاری نہیں ہوسکتے ہیں۔

تاہم اس کے باوجود رمشا کالونی میں دکانوں اور مکانات کی خرید و فروخت کا عمل جاری ہے ’یہاں پر مکانوں اور دکانوں کا ریٹ کم و بیش وہی ہے جو وفاقی دارالحکومت کے دوسرے علاقوں میں ہے‘ مگر اس کے باوجود اس کالونی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے 1300 گھروں اور 7000 ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل اس آبادی میں سرکاری ہسپتال تو دور کی بات ڈسپنسری بھی نہیں ہے ’اتائیوں کی بھرمار ہے اس لئے یہاں کے بیماروں کا تمام تر انحصار ”ابن مریم“ پر ہی ہے یہ لوگ دوا کے بجائے دعا کو ترجیح دیتے ہیں۔

اگر آپ وفاقی دارالحکومت میں واقع اس کالونی کا چکر لگا لیں تو فروغ تعلیم کے حوالے سے حکومت کے جو دعوے ہیں سب کی حقیت سامنے آ جائے گی۔ رمشاء کالونی کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچوں سے اگر آپ پوچھیں کہ وہ سکول کیوں نہیں جاتے تو آگے سے جواب ملے گا کہ یہاں پرتو سکول ہے ہی نہیں‘ رمشا کالونی میں ایک بھی سرکاری سکول نہیں جس سے فروغ تعلیم کے حوالے سے حکومتی دعووں کی اصلیت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اس کالونی کے مکینوں کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ہے ان کو پینے کے لئے بھی پانی خریدنا پڑتا ہے وہ بھی منٹوں کے حساب سے ’کالونی کے مکینوں کا کہنا ہے سردیوں میں 15 منٹ پانی لینے کے لئے (جو کہ پائپ کے ذریعے گھروں میں پہنچایا جاتا ہے ) ایک سو روپے دینا پڑتے ہیں جبکہ گرمیوں میں اسی کا ریٹ دو سو سے تین روپے تک پہنچ جاتا ہے اور انہیں روزانہ پانچ سے سات سو روپے پانی کے لئے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

مکینوں کے پاس روزگار کے ذرائع نہیں ہیں زیادہ تر لوگ دیہاڑی کرنے والے مگر اس کے باوجود انہیں زندہ رہنے کے لئے یہ خرچہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ زندہ رہنے کے لئے پانی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ رمشاء کالونی کا نام اسلام آباد کی 12 سالہ رمشاء کے نام پر رکھا گیا ہے جس پر ایک امام مسجد نے توہین مذہب کا الزام عائد کیا تھا تاہم وہ الزام بے بنیاد ثابت ہونے پر بعد ازاں رمشاء کو عدالت نے بری کر دیا تھا مگر رمشاء اس کے والدین اور دیگر رشتہ دار اس مولوی کے خوف سے اپنا علاقہ چھوڑ کر سیکٹر H۔9 کے اس غیر آباد علاقے میں آ کر آباد ہو گئے۔ ان کے آنے سے قبل اس علاقے میں کچھ لوگ رہتے تھے جنہیں راول ڈیم متاثرین کہا جاتا ہے ‘ جن کے مطابق وہ لوگ راول ڈیم کے کنارے رہتے تھے جنہیں سیکورٹی رسک قرار دے کر وہاں سے اٹھا دیا گیا تو وہ یہاں آ کر رہنا شروع ہو گئے تھے ’رمشا اور اس کے رشتہ داروں کے یہاں آنے کے بعد مسیحوں کی بڑی تعداد یہاں آ کر آباد ہو گئی اور یوں یہ کالونی مسیحوں کی سب سے بڑی کچی آبادی بن گئی۔ اس کچی آبادی میں گرجا گھر بھی ہیں‘ کمرشل دکانیں بھی اور کچھ پکے مکان بھی نہیں ہے تو پانی ’بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات جس کی وجہ سے یہاں کے مکین پتھر کے دور میں جینے پر مجبور ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments