قبائلی اضلاع، بلدیاتی انتخابات کے بعد


ایک ماہ قبل یعنی انیس دسمبر دو ہزار اکیس کو آدھے صوبے کی طرح آدھے قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچے۔ باجوڑ مہمند اور خیبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اس حوالے سے تاریخ ساز تھے کہ ایک تو علاقے کی تاریخ کے اولین بلدیاتی انتخابات تھے دوم یہ کہ تحصیل چیئرمین کا حلقہ بعض علاقوں میں دو یا تین صوبائی حلقوں سے بھی بڑا تھا اور سوم یہ کہ اکثر امیدواروں کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ ہم کیا بننے اور کیا کرنے جا رہے ہیں مگر علاقے میں ایک رنگین جمہوری اور سیاسی سرگرمی میں سب بہت والہانہ انداز سے شریک تھے۔ کیا مرد کیا خواتین کیا جوان کیا بوڑھے اور بچے سب اس بات سے نہال تھے کہ وہ اپنے علاقے کے سیاسی اور جمہوری نظام کا حصہ بن رہے ہیں اور اپنے علاقائی مسائل کے حل کا گر اور اختیار حاصل کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کی طرح بلدیاتی انتخابات بھی بنیادی آئینی تقاضا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جمہوری ادوار میں اس کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ تو مقامی مسائل کے حل کے لئے مقامی سطح کے اداروں کو توانا بنا کر ان کا تسلسل برقرار رکھا جا سکا نہ ہی ان اداروں کو سیاسی نرسری کے طور پر کام میں لاکر سیاسی لیڈر شپ پیدا کیا جا سکا۔ قبائلی عوام کی خوش قسمتی ہے کہ وہ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران تین الگ الگ انتخابات (قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی) میں حصہ لے کر جمہوریت کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ موجودہ قومی اور صوبائی حکومت کی تمام تر نا اہلیوں من مانیوں اور مشکلات کے باوجود قبائلی اضلاع سے منتخب ممبران پختونخوا اسمبلی اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ خواہ وہ اہل علاقہ کے مسائل اسمبلی کے فلور پر اٹھانا ہو، سیکرٹریٹ اور ڈائریکٹس کے لیول پر ہو یا پھر میڈیا کے ذریعے ارباب اختیار تک پہنچانا ہو، حکومتی ممبران کے علاوہ نثار مومند، میر کلام وزیر، شفیق شیر اور بصیرت بی بی کا کردار سب کے سامنے ہیں۔

اگرچہ ستر سال سے انسانی حقوق آئین اور قانون سے محروم قبائلی عوام کے مسائل ایسے تو نہیں کہ اسے دو تین سال میں حل کر کے ختم کیا جاسکتا ہے، مگر پہلے صوبائی اور اب بلدیاتی انتخابات سے کم از کم امکان پیدا ہوا ہے کہ اگر ان تمام جمہوری اداروں کا تسلسل برقرار رکھا گیا، اور انہیں آئین و قانون کے مطابق اختیار دے کر اپنے اپنے بنیادی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا تو بہت جلد قبائلی اضلاع کے عوام بھی ملک کے باقی اضلاع اور علاقوں کی طرح ترقی کی منازل طے کرتے نظر آئیں گے۔

جہاں تک نئے ضم شدہ اضلاع کے چیدہ چیدہ مسائل کا تعلق ہے اس میں صحت اور تعلیم کے اداروں کا معیار اور اسے مکمل طور پر فنکشنل بنانا سب سے ناگزیر حل طلب مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے متعلقہ اداروں سمیت تمام منتخب ممبران کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں انتظامیہ سمیت سرکاری افسران اور تمام منتخب ممبران سے یہ بھی گزارش ہے کہ دوسرے محکموں کے ملازمین پر چیک رکھنا یقیناً ضروری ہے مگر اپنے اختیارات سے تجاوز کبھی بھی مثبت نتائج کو جنم نہیں دے سکتا ہے۔ اس لئے سرکاری افسران اور منتخب ممبران کو قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے اپنے اختیارات کا مطالعہ کرنا اور اسی انداز میں اس کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جس کا قانون اجازت دیتا ہے۔

تعلیم اور صحت کے علاوہ قبائلی اضلاع کے مسائل میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ، کچی گلیاں، صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ جو ان نو منتخب بلدیاتی ممبران کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔

اگرچہ بلدیاتی انتخابات میں حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جس کی وجہ سے حکومتی ارکان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید حکومت بلدیاتی حکومتوں کو ناکام بنانے کے لئے ہر حربہ آزمانے سے گریز نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود اب تک منتخب افراد کی حلف برداری تک کا انعقاد نہیں کیا جا سکا۔ درجہ بالا وجوہات اور حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے افواہیں پھیل رہی ہے کہ شاید حکومت نو منتخب ممبران کو دوسرے مرحلے کے انتخابات تک انتظار کی سولی پر لٹکانا چاہتی ہیں جس کا مارچ میں ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ نہ صرف نو منتخب ممبران کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ یہ ان بے چاروں کے جذبے کو ماند کرنے کا سبب بنے گی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر نو منتخب ممبران کی حلف برداری اور اختیارات سرکاری محکموں سے لے کر انہیں منتقل کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ تاکہ نو منتخب ممبران سمیت قبائلی عوام کا سیاسی اور جمہوری جذبے کو دوام دیا جا سکے۔

جہاں تک ضم شدہ اضلاع میں باقی مسائل کا تعلق ہے۔ ان میں زمینوں کو دستاویزی بنانا سب سے اہم مسئلہ ہے قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ سابقہ فاٹا میں زمینوں اور جائیدادوں کا کوئی دستاویزی ریکارڈ نہیں تھا۔ حتی کہ زمینوں کی خرید و فروخت بھی کچے کاغذ پر یا زیادہ سے زیادہ سٹامپ پیپر پر کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ اس تمام علاقے میں اجتماعی یا مشترکہ زمینوں کا تصور اب بھی پورے پاکستان سے زیادہ ہے یعنی پہاڑ بیابان ندی نالے اور اس قسم کی غیر آباد زمینیں اب بھی چھوٹے بڑے قبیلوں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مقامی ماہرین کی مشاورت سے ایک ایسے با اختیار کمیشن کا قیام عمل میں لائے جو ان مشترکہ زمینوں کو تقسیم کرنے اور اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرے۔ اور اس پر جتنا جلد ممکن ہو عمل درآمد کیا جائے کیونکہ انضمام کے بعد ان اضلاع میں زمینوں پر تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

پولیس نظام کے استعداد کار کو بتدریج مگر تیزی کے ساتھ بڑھانا ضروری ہے۔ ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے بہت آسانی کے ساتھ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اس پر فوری اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں کے لئے زمین کی خریداری کے نظام اور طریقہ کار کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام میں بے تحاشا خامیاں نظر آتی ہے جس سے انتظامیہ اور زمین مالکان کے درمیان تنازعات اور مسائل جنم لے رہے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں یونیورسٹی لیول کے تعلیمی اور تکنیکی اداروں کا قیام یہاں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان تجاویز پر عملدرآمد سے کئی ایک مسائل حل اور عوام کی مایوسی کم ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments