نظام کہنہ میں انقلابی تبدیلیاں


عمران حکومت کے وزراء اور ان سے کہیں زیادہ ترجمانوں کی فوج ظفر موج بہت پریشان تھے کہ میڈیا میں ”مہنگائی۔ مہنگائی“ کی دہائی کیوں مچائی جا رہی ہے۔ انہیں میسر اعداد و شمار تو یہ بتارہے تھے کہ اب کے برس کئی نقدآور فصلوں نے ریکارڈ بناتی پیداوار دکھائی ہے۔ اس کی بدولت کاشت کاروں کے ہاتھ توقع سے زیادہ نقدی آئی۔ اضافی رقوم سے انہوں نے بڑے چاؤ سے نئی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور ٹریکٹر خریدے۔ نظر بظاہر وطن عزیز میں پھیلتی خوش حالی فقط دیہات تک ہی محدود نہیں رہی۔ شہروں کے مہنگے ترین ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ مری جیسے مقامات سے برف باری کی خبریں آئیں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موبائل فونوں پر موجود موسم کا حال جانے بغیر ہی بچوں سمیت وہاں پہنچنے کو گھروں سے نکل آتے ہیں۔ میڈیا ان حقائق کو لیکن جان بوجھ کر نظرانداز کرتا رہا۔ لوگوں میں مایوسی پھیلانے کو مصررہا۔ ٹھوس حقائق کا لہٰذا بغور جائزہ لینے کا فیصلہ ہوا۔

اعداد و شمار کی بھرپور توجہ سے دوبارہ پڑتال ہوئی تو گزشتہ ہفتے دریافت یہ ہوا کہ آج سے چھ ماہ قبل وفاقی بجٹ تیار کرتے ہوئے ہمارے پالیسی سازوں نے تین کھرب روپے کی خطیر رقم کو مجموعی قومی آمدنی میں شمار ہی نہیں کیا تھا۔ وہ اس آمدنی کو ان پیمانوں کی مدد سے طے کرتے رہے جو آج سے نوبرس قبل اختیار کیے گئے تھے۔ ان پیمانوں کی نظرثاتی لازمی تصور ہوئی۔ اسے Rebasingکا نام دیا گیا۔ نئے پیمانوں کے اطلاق نے خوش گوار حیرتیں اجاگر کیں۔ یہ دریافت ہوا کہ کرونا کی پھیلائی نحوستوں کے باوجود پاکستان کی معیشت 5.6 فی صد کی شرح نمودکھارہی ہے۔ ہماری فی کس آمدنی بھی 500 ڈالر کے خانے سے نکل کر 1600 ڈالر والے خانے میں داخل ہو چکی ہے۔

نئے حقائق کی دریافت نے حکومت کا حوصلہ بڑھادیا ہے۔ نہایت فخر سے انہیں دہراتے ہوئے اصرار ہو رہا ہے کہ 2018 میں تقریباً خالی ہوئے قومی خزانے کے ساتھ حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب کی قیادت نے نہ صرف ہماری معیشت کو بحال کیا بلکہ اسے تیز رفتار ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے۔ معیشت کی بحالی اور استحکام وخوشحالی کی جانب جاری سفرمیں ان ہاؤس تبدیلی کی امید دلاتے ہوئے رکاوٹیں ڈالنا موجودہ حکومت ہی نہیں وطن عزیز کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ مایوس کن کہانیاں پھیلاتے ہوئے عمران حکومت کو گھر بھیجنے کی بڑھکیں لگاتے ہوئے خود غرض اور تخریب کار عناصر کا مکو اب ہر صورت ٹھپنا ہو گا۔

ہمارے میڈیا کو پہلے ہی مناسب حد تک حکومتوں میں باریاں لینے والے سیاست دانوں کے لفافہ برادر صحافیوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ میرے جیسے پھلوں کی ٹوکریاں لینے والے اگرچہ اب بھی کالم۔ شالم لکھ لیتے ہیں۔ ڈیجیٹل زمانے میں لیکن اخبارات کے لئے لکھنے والے بکاؤ لکھاریوں کا اعتبار ختم ہو چکا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر جو ”شرپسند“ باقی ر ہ گئے ہیں وہ ڈاکٹر شہباز گل کے جلال کی تاب برداشت نہیں کر سکتے۔ عاصمہ شیرازی جیسی اینکر بھی اب سپاہ ٹرول کے نرغے میں گھر چکی ہے۔ چند سیاستدان مگر اب بھی سیدھے نہیں ہورہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی کورم کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ حکومت کورم پورا کر بھی لے تو منفی تقاریر شروع ہوجاتی ہیں۔

ایسے سیاستدانوں کے رویے سے اکتاکر ایک اخباری خبر کے مطابق تحریک انصاف کے جوا ں سال وبلند آہنگ وزیر جناب مراد سعید صاحب نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو باقاعدہ چٹھی لکھ دی ہے۔ مبینہ خط کے ذریعے ان سے درخواست ہوئی ہے کہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے مقدس ایوان کو مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے افراد لایعنی تقریروں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی تقاریر کے تدارک کا بندوبست ہونا چاہیے۔

1960 کی دہائی کے وسط میں چینی انقلاب کے رہبر ماؤزے تنگ کو شدت سے احساس ہونا شروع ہوا کہ حکومتی عہدوں پر دودہائیاں گزارنے کی وجہ سے ماضی کے بے تحاشا ”انقلابی“ بدعنوان وعیاش بن گئے ہیں۔ پرانے ساتھیوں کے بدلے چلن سے اکتاکر ماؤزے تنگ نے مراد سعید اور شہباز گل جیسے تازہ دم انقلابیوں کو ”ریڈ بریگیڈ“ میں جمع کیا۔ انہیں ہدایت دی کہ نکمے اور عیاش ہوئے انقلابیوں کے گھروں اور دفتروں کے باہر ان کے کرتوتوں کو بے نقاب کرنے والے پوسٹر لگائے جائیں۔ وہ اس کے باوجود شرمندہ نہ ہوں تو ان کے دفاتر اور گھروں کا گھیراؤ کیا جائے۔ ماؤزے تنگ کی سوچی ترکیب بالآخر چین میں ”ثقافتی انقلاب“ کا باعث ہوئی۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر کئی برسوں سے بیٹھے لاکھوں پرانے انقلابی معتوب ہوکردیہاتوں میں کسانو ں کی طرح مشقت کرنے کو بھیج دیے گئے۔

چند دنوں سے حکومتی ترجمانوں اور چند وزراء کے رویے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے میں یہ سوچنے کو مجبو ر ہوں کہ تحریک انصاف کے اصل انقلابی بھی پاکستان میں چین جیسا ثقافتی انقلاب لانے کو بے چین ہو رہے ہیں۔ نہایت حقارت سے یہ پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ پاکستان درحقیقت ساٹھ سال سے زیادہ عمر والی نسل کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ عمران خان صاحب اگرچہ اس ضمن میں انقلابی استثناء ہیں۔ ”نظام کہنہ“ کی وجہ سے سیاسی اور عدالتوں بندوبست کئی برسوں سے چلاآ رہا ہے اس نے عمران حکومت کو سیاست دانوں کا روپ دھارے چور اور لٹیروں کا کڑا احتساب نہیں کرنے دیا۔ نواز شریف عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود مبینہ طور پر بیماری کا ڈھونگ رچاتے ہوئے لندن چلے گئے۔ ان کے بھائی شہباز شریف نظر بظاہر منی لانڈرنگ کے عادی مجرم رہے ہیں۔ قومی اسمبلی جیسے مقدس ایوان میں لیکن وہ قائد حزب اختلاف جیسے باوقار منصب پر فائز ہیں۔ رانا ثناء اللہ منشیات کی بھاری بھر کم پوٹلی سمیت گرفتار ہوئے تھے۔ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد البتہ دندناتے پھررہے ہیں۔ احسن اقبال، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی بھی سنگین مالی الزامات کے تحت بنائے مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کو لیکن یہ سارے اپنی خواہش کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے انقلابیوں کا اصل دکھ یہ ہے کہ بدعنوان سیاستدانوں کے کڑے احتساب میں ناکام نظر آنے کی وجہ سے ان کی جماعت عوامی مقبولیت کھورہی ہے۔ نام نہاد مہنگائی اس کی حقیقی وجہ نہیں۔

تحریک انصاف کے چراغ پا ہوئے انقلابیوں کو مگر یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ فقط نظام کہنہ کے تحت بنائے سیاسی اور عدالتی بندوبست کو چور اور لٹیروں کا مددگار دکھانے سے بات نہیں بنے گی۔ ”انقلاب“ تخلیقی پیش قدمیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مراد سعید صاحب اگر واقعتاً قومی اسمبلی میں چور اور لٹیروں کو بے بس بنانا چاہتے ہیں تو محض اس ایوان کے قواعد وضوابط میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے بھی شاندار نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مذکورہ قواعد کے تحت مثال کے طور پر سنگین ترین الزامات کے تحت جیل میں قید ہوئے رکن اسمبلی کو بھی یہ حق میسر تھا کہ وہ ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے ہر صورت لایا جائے۔ اسد قیصر صاحب نے بتدریج اس حق پر عملداری ترک کررکھی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی چلانے کے لئے جو قواعد وضوابط ”نظام کہنہ“ نے متعارف کروائے ہیں ان کی جارحانہ نظرثانی ہو۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم نہ سہی اکثریت اب بھی حاصل ہے۔ حال ہی میں یہ اکثریت ایک ہی دن میں منی بجٹ کے علاوہ پندرہ قوانین کی منظوری کی بدولت ثابت ہوئی ہے۔

مذکورہ اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف کے انقلابی قومی اسمبلی پر لاگو ہوئے قواعدوضوابط کوبآسانی بدل سکتے ہیں۔ یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ جس رکن اسمبلی کے خلاف احتساب عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں اسے ضمانت پر رہائی کے باوجود قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا حق میسر نہیں ہو گا۔ جب تک وہ اس مقدمے میں بری نہ ہو جائے اسے اسلام آباد میں رہائش کے لئے پارلیمانی لاجز میں فلیٹ بھی فراہم نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی اسے بطور رکن اسمبلی تنخواہ اور سفری مراعات میسر ہوں گی۔ ”نظام کہنہ“ کے خلاف مسلسل سینہ کوبی کے بجائے تحریک انصاف کو انقلابی انداز میں قدم بڑھانا ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے ضواعد وضوابط میں اس خاکسار کی تجویز کردہ تبدیلیوں کی بدولت ”چور اور لٹیروں“ کا مکو بآسانی ٹھپا جاسکتا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments