مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کا قابل عمل نسخہ


کیا ہم صرف میڈیسن کے ساتھ مستقل طور پر ہائی یا کم بلڈ پریشر کا علاج کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں بالکل نہیں۔ بلکہ ہمیں اس کے لئے میڈیسن کے ساتھ ساتھ ان تمام عوامل پر بھی نظر رکھنی ہوگی جن کی وجہ سے بلڈ پریشر ہائی یا کم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہو تو اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ عوامل کا تعلق ہماری جسمانی ساخت، ذہنی کیفیت، قوت مدافعت، روزمرہ کھانے پینے اور رہنے سہنے کی عادات کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہت سے کیسز میں اس کی وجہ خاندانی جینیٹکس ہوتی ہیں اور کئی کیسز میں بیرونی عوامل یعنی موسمی اثرات، کچھ لوگوں کا ناپسندیدہ رویہ، ورک پلیس کی پریشانیاں وغیرہ بھی ہو سکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہائی بلڈ پریشر کا مریض کسی ”اچھے اور قابل ڈاکٹر“ کے پاس جاتا ہے تو وہ مریض کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد کوئی ایک یا دو گولیاں اس وقت تک روزانہ کھانے کو دیتا ہے جب تک مریض کا بلڈ پریشر نارمل نہ ہو جائے، مگر ساتھ میں کچھ ہدایات اور تاکید بھی سختی سے کی جاتی ہے کہ جسمانی ورزش اور چہل قدمی کو معمول بنانا ہے، تمباکو نوشی، نمک اور چکنائی کا استعمال کم از کم کرنا ہے۔ ہمہ قسمی سٹریس اور پریشانی سے بچنا ہے، وزن کو کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ کولیسٹرول کا ٹیسٹ بھی کرواتے رہنا ہے وغیرہ۔

اب اگر مریض صرف میڈیسن کھائے مگر ”ضروری تاکید“ پر عمل نہیں کرے تو اس مرض سے اچانک موت کا شکار تو خیر نہیں ہو گا، بلکہ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جائے گا، یعنی بلڈ پریشر جب ابتدائی طور پر زیادہ رہنے لگے گا تو مریض کے دل کو نارمل روٹین سے زیادہ کام کرنا پڑے گا جس سے دل کے عضلات کمزور ہوتے جائیں گے، خون کی باریک نالیوں میں منفی کولیسٹرول جمع ہو کر ان کو بلاک کر دے گا، جس سے پہلے سے کمزور دل کو خون کی سپلائی متاثر ہوگی۔

ایسے میں بلڈ پریشر روٹین میں زیادہ رہنے سے مریض ”نیو نارمل“ پر ایڈجسٹ کر جائے گا، یہی وجہ ہے کہ جب ہائی بلڈ پریشر کا مریض ایک دو دن دوائی کی چھٹی کرنے کے بعد دوبارہ میڈیسن لینا شروع کرتا ہے تو اس کو بہت کمزوری اور نقاہت محسوس ہوتی ہے، جسم میں توانائی نہیں رہتی اور نا ہی کوئی کام کرنے کو دل کرتا ہے۔ ایسے حالات میں مریض کیوں کہ پہلے ہی ”ضروری تاکید“ پر عمل پیرا نہیں ہے اور دل بھی روٹین سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکا ہے، خون کی سپلائی بھی متاثر ہو چکی ہے تو کسی دن بظاہر ”اچانک“ دل کا دورہ پڑتا ہے، سرجری ہوتی ہے اور کچھ کیسز میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کو ”خاموش قاتل“ بھی کہتے ہیں۔

اب ہم low یا کم بلڈ پریشر کے مریض کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ ہائی اور کم بلڈ پریشر کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں مگر کم بلڈ پریشر کی وجوہات یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ مریض کا بلڈ پریشر اگر زیادہ ہی کم ہو جائے تو ڈاکٹر اس کو فوراً سٹیرائیڈ انجکشن اور ڈرپ لگانے کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھتے ہیں، ہائی بلڈپریشر کے برعکس کم بلڈ پریشر کی وجوہات کا زیادہ تر تعلق بیرونی عوامل سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو خدانخواستہ زہریلا سانپ کاٹ لے تو انسانی جسم کے لئے یہ ایک بیرونی شاک ہو گا جس سے مریض کا دل بہت زیادہ گھبرائے گا اور اس کا بلڈ پریشر کافی کم ہو سکتا ہے۔

ایسے میں سانپ کے زہر کا تریاق کرنے کے ساتھ ساتھ مریض کے بلڈ پریشر پر کو نارمل رکھنے کے لئے خصوصی توجہ دینی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر مریض کا بلڈپریشر کسی بھی وجہ سے کم ہونے لگ جائے تو یہ زیادہ ایمرجنسی کی صورت حال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بلڈپریشر ہائی ہو یا کم دونوں صورتوں میں ڈاکٹر اور ادویات تو اہم ہیں ہی مگر زیادہ اہمیت کی چیز مریض کی جسمانی ورزش اور کھانے پینے کی عادات، ارد گرد کے لوگ اور ماحول، بیماری سے لڑنے کی قوت مدافعت اور اس کا مرض سے نجات حاصل کرنے کا عزم ہیں۔

آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ بلاگ کا ٹاپک تو مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کا ہے مگر باتیں ساری جسمانی صحت اور میڈیسن کی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں آپ بالکل پریشان نہیں ہوں اور میری مانیں تو اوپر کے چار پیراگراف دوبارہ غور سے پڑھیں۔ جسم کے بلڈ، اس کے پریشر، اس میں اتار چڑھاؤ، اس کی علامات، علاج اور حرکیات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرنے کے ساتھ ”اچھے اور قابل ڈاکٹر“ اور ”ادویات“ کی اہمیت اور ”ضروری تاکید“ کے کردار کو ذہن نشیں کر لیں گے تو مجھے اپنے پوائنٹس سمجھانے میں کافی مدد مل جائے گی۔ اگر آپ نے میری ریکویسٹ مان کر کے یہ کام کر لیا ہے تو ہم آگے چلتے ہیں۔

اکنامکس کو عام طور پر مشکل اور ”خشک مضمون“ کہا اور سمجھا جاتا ہے مگر مجھے ذاتی طور پر ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا۔ کیوں کہ میں معیشت یا اکانومی کو ایک ایسے جسم کی مانند سمجھتا ہوں جسے بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز یعنی بیماریوں اور شاکس، سردی اور گرمی کی طرح بدحالی اور گرم بازاری، کبھی کبھی دریا یا سمندر میں اترنے یا طوفانوں اور تیز بارشوں اور سیلاب نما کساد بازاری اور بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام چیلنجز نما معاشی بیماریوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمارے جسم کو ”اچھے اور قابل ڈاکٹر“ نما معیشت دان یا اکانومسٹ، ”اچھی ادویات“ کی طرح کی بہتر معاشی و اقتصادی پالیسیاں اور ”ضروری تاکید“ پر عمل کرنے جیسے ذمہ دار رویہ جات و عادات کی شدید ضرورت ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ پھر ہماری جسم نما معیشت کو معاشی بیماریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ چیلنجز تو ازل سے انسان کو در پیش ہیں اور موسموں کی طرح ہم ہمیشہ ان کا سامنا کرتے رہیں گے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت مند جسم کا تصور ہمارے سامنے ترقی یافتہ معیشت کے طور پر رہنا چاہیے، اور ”اچھے اور قابل ڈاکٹر“ کی طرح اچھے معاشیات دان پیدا کرنے کی طرف ہمارے حکمرانوں اور عوام کی توجہ ضرور ہونی چاہیے۔ اکنامکس مضمون کو پڑھنے اور پڑھانے کے لیے ہمیں ایسے طالب علم چاہیں جو اوسط درجے کے نہیں بلکہ ٹاپرز ہوں۔ عوام اور حکمرانوں کی پہلی ترجیح اچھے معاشیات دان پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ یہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے ساتھ ساتھ باقی کی تمام معاشی بیماریوں مثلاً غربت، بے روزگاری، ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ وغیرہ کے لئے پہلا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ آئیں اب بلڈپریشر کی طرف واپس آتے ہیں۔

اگر معیشت ایک جسم ہے تو زر (Money) اس کا بلڈ کہلاتا ہے، جب تک جسم میں بلڈ گردش کرتا ہے تو انسان زندہ رہتا ہے۔ بلڈ کے جم جانے کا مطلب موت واقع ہونا ہے۔ اس لیے معیشت میں زر کو گردش کرتے رہنا چاہیے۔ مگر زر کی گردش اگر بہت زیادہ ہو جائے تو سمجھیں اس کی ولاسٹی بڑھ گئی ہے جسے آپ اس کا پریشر کہ سکتے ہیں۔ زر کی گردش یا اس کی مقدار کے بڑھ جانے سے معیشت کے جسم کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا جائے تو اسے ہم ”افراط زر“ یا مہنگائی کہ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر معیشت کا بلڈ پریشر کم ہو جائے تو اسے ”تفریط زر“ یا اشیا و خدمات کی قیمتوں میں مسلسل کمی واقع ہونا کہتے ہیں۔

معیشت کے ہائی بلڈ پریشر یا افراط زر (مہنگائی) کو زیر بحث لانے سے پہلے مختصر طور پر تفریط زر کو دیکھ لیتے ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے لئے ہائی کی بجائے کم ہوتا ہوا بلڈپریشر ایک ایمرجنسی کی صورتحال ہوتا ہے، ویسے ہی معیشت کے لئے اشیا و خدمات کی گرتی ہوئی یا کم ہوتی قیمتوں کا مطلب ہے کہ معیشت کا دل اب بیٹھنے لگے گا اور شدید کمزوری محسوس ہوگی۔ ایسے میں معیشت کو سٹیرائیڈ انجکشن، گلوکوز کی ڈرپ یا خون یعنی زر کی رسد نہ بڑھائی جائے تو معیشت شاک یا قوما میں جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشیا و خدمات کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کے خواب ہمیں نہیں دیکھنے چاہئیں اور اگر کوئی سیاست دان انتخابات میں یہ نعرہ لگائے کہ وہ قیمتیں کم کرے گا اور اجرتوں میں اضافہ کرے گا تو سمجھ لیں کہ ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔

اب آتے ہیں معیشت کے ہائی بلڈ پریشر یعنی مہنگائی کی طرف۔ جیسے ایک صحت مند جوان انسان کے لئے بلڈ پریشر کے صحت مند لیول کا مطلب تو 120 / 80 ہے مگر اکثر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کہ 130 / 90 تک بھی کوئی میڈیسن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ بلڈ پریشر کے اس لیول پر جسم میں زیادہ توانائی اور چستی محسوس ہوتی ہے اسی طرح اشیا و خدمات کی رینگتی ہوئی یعنی تھوڑی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی معیشت کے لئے اور ”پیدا کنندگان“ کے لئے توانائی کا کام کرتی ہیں، یعنی اگر سالانہ مہنگائی 4۔ 2 فیصد کے حساب سے ہو تو یہ اشیا و خدمات کے پیدا کنندگان کو موٹیویٹ کرتا ہے اور جی ڈی پی کی گروتھ، سالانہ و فی کس آمدنی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

جس طرح جسم کے لئے ہائی بلڈ پریشر خاموش قاتل ہے اسی طرح معیشت میں زر کی مقدار میں بے تحاشا اضافہ، اس کی قدر میں کمی اور گراوٹ یا کمر توڑ مہنگائی بھی ایسے افراد کے لئے خاموش قاتل ہے جو معین یا فکسڈ آمدنی کے حامل ہیں، جن کی اجرت میں سالانہ اضافہ مہنگائی کی سالانہ شرح سے کم ہوتا ہے یا جو کسی طور بھی ”پیدا کنندگان“ کی فہرست میں نہیں آتے۔ اب ایسی صورتحال میں ”اچھے اور قابل ڈاکٹر“ یعنی اچھے معیشت دانوں کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ ابتدائی طبی امداد کے لئے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

وہ بھی میڈیسن تو دے دیں گے مگر ”ضروری تاکید“ پر ہمیں خود عمل کرنا ہو گا۔ اگر عمل نہیں کریں گے تو ناصرف میڈیسن یعنی معاشی پالیسی بے اثر ہو جائے گی بلکہ دل کی بڑی سرجری بھی کروانی پڑ سکتی ہے۔ اگرچہ معیشت کے ہائی بلڈ پریشر یعنی کمر توڑ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اب ہم بائی پاس سرجری کی ہی اسٹیج پر ہیں مگر پھر بھی ہم ان امکانات پر غور کرتے ہیں جو میڈیسن اور ”ضروری تاکید“ کے ضمرے میں آتے ہیں۔

مہنگائی کے علاج کے طور پر جو میڈیسن استعمال کی جا سکتی ہیں وہ اس وقت حکومت اور آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں۔ آئی ایم ایف کی ضد ہے کہ بائی پاس سرجری کی جائے یعنی سبسڈی مکمل طور پر ختم کی جائے، نقصان والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے، ٹیکسوں کا نیا اور شفاف نظام تشکیل دیا جائے، دفاع کے اخراجات کم کیے جائیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل خود مختار کیا جائے، سرکاری اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی کی جائے، ٹیکسز میں رعایت بالکل نہ دی جائے، ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا کر زراعت کو بھی شامل کیا جائے اور ایکسچینج ریٹ کو مکمل اور حقیقی طور پر لچکدار رکھا جائے وغیرہ۔

اس کے برعکس حکومت سرجری کرنا نہیں چاہتی یا بوجوہ کر ہی نہیں سکتی، اس لیے چاہتی ہے کہ میڈیسن یعنی زر کی رسد اور گردش کو کنٹرول کر کے، شرح سود میں رد و بدل کر کے، بینکنگ سسٹم کو ہلا جلا کر اور اندرونی و بیرونی قرض و امداد کے ساتھ ہی کام چلا لیا جائے۔ مگر اس میڈیسن سے شاید اب کام نہیں بن سکے گا۔ کیوں کہ حکومت کو کافی اندرونی و بیرونی چیلنجز اور دباؤ کا سامنا ہے۔ بیرونی محاذ پر قرضوں اور سود کی ادائیگی، درآمدات میں اضافہ اور امداد میں کمی، روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں قدر میں کمی، برآمدات میں واضح اضافہ نہ ہونا اور افغانستان میں حکومت کی تبدیلی وغیرہ ایسے چیلنجز ہیں کہ حکومت کو تقریباً بے بس ہی سمجھیں۔ ابھی ہم اندرونی چیلنجز کو زیر بحث لے آئیں تو ایک طویل اور شاید نا ختم ہونے والی فہرست ہے۔

ایسے حالات میں بائی پاس سرجری کے بغیر جب علاج تقریباً ناممکن دکھائی دے رہا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے مریض کو ہی سمجھائیں کہ میڈیسن اور سرجری کی بحث حکومت اور آئی ایم ایف پر چھوڑ دے، سونے اور تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں کا معاملہ، کرپٹو کرنسی اور اسٹاک کے عالمی لین دین کے معاملات کو بھی کچھ عرصہ کے لئے بھول جاتے ہیں اور ”ضروری تاکید“ پر ہی سختی سے عمل کر کے دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسی سے ہائی بلڈ پریشر کے مرض سے نجات ملے اور ہم چست محسوس کریں۔

اس ساری افسانہ نما حقیقت میں ”ضروری تاکید“ کے پوائنٹس میں روزانہ جسمانی ورزش کے ذریعے وزن کو کنٹرول میں رکھنے سے مراد غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنا ہے۔ جس طرح بڑھا ہوا وزن اور پیٹ بلڈپریشر سے دل کے دورہ پڑنے کے امکان میں اضافہ کر دیتا ہے ویسے ہی غیر ضروری اخراجات مہنگائی سے لڑنے کی طاقت میں بے پناہ کمی کر دیتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے ایک طرف اشیا کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو دوسری طرف بچت نا ہونے سے سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی اور جب تک ہم صارفین کی بجائے آجرین یا ”پیدا کنندگان“ کی فہرست میں شامل نہیں ہوں گے تو اپنی حقیقی آمدنی میں اضافہ نہیں کر سکیں گے جو جسم نما معیشت کی ”قوت مدافعت“ کہلاتی ہے اور ہر قسمی بیماری سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات سے بچنے کے لئے مائیکرو لیول پر اس سے زیادہ آزمودہ نسخہ کوئی نہیں کہ ہم سب اپنی قوت مدافعت یعنی حقیقی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ مارنے کا سوچے بن اپنے مزاج کے مطابق نئی سکلز سیکھنے کی کوشش کریں اور کسی ایک اچھی سکل میں بھر پور مہارت حاصل کریں اور اپنے شوق، عادات اور کاروبار و آمدنی کے ذریعہ کو ایک بنائیں۔ اس کی حیثیت بلڈ پریشر والی سٹوری میں اس اچھے ڈائیٹ پلان کی ہے جو ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنے کے لئے اشد ضروری ہوتا ہے۔

مہنگی درآمدی اشیا کو نمک اور چکنائی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ان اشیا کو صرف انتہائی ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہیے، ورنہ یہ کولیسٹرول نما درآمدی خسارہ اور نتیجتاً کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا باعث بننے کے ساتھ ہماری ملکی صنعتوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ جس طرح ہائی بلڈپریشر کے مریض کو سٹریس اور پریشانی نہ لینے کی تاکید کی جاتی ہے تو ویسے ہی مہنگائی کے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر اس چیز کی طلب میں ہر ممکن حد تک کمی کی کوشش کی جائے جس کی قیمت آپ کو زیادہ محسوس ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو لگتا ہے کہ پیٹرول ڈیزل کی قیمت زیادہ ہے تو ان سے چلنے والی چیزوں کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے وقت کریں۔ اگر ہمیں لگے کہ چینی کی قیمت زیادہ ہے تو کیوں نہ اس کی قیمت میں کمی ہونے تک ہم اس کی طلب میں ہی کمی کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments