دیرپا قومی شعور کے لئے تدریسی ڈھنگ بدلنے کی ضرورت


 

پوری دنیا میں 24 جنوری کا دن ”تعلیم کے عالمی دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم جیسے ممالک میں یہ دن روزانہ کی بنیاد پر منایا جانا چاہیے اور تعلیم کے فروغ کے لئے روزانہ، ہفتہ وار، ماہوار، ششماہی اور سالانہ بنیاد پر ہدف مقرر کر کے ان پر عمل کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ پاکستان، دنیا میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے 164 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان، روانڈا (جو کہ اس فہرست میں 163 ویں نمبر پر ہے ) سے ایک درجہ پیچھے ہے اور تنزانیہ (جو 165 ویں نمبر پر ہے ) سے تھوڑا آگے ہے۔ پاکستان میں 2 لاکھ سے زیادہ پرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکول ہیں، جن میں 6 لاکھ اساتذہ اور 2 کروڑ، 50 لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔

اس سال تعلیم کے اس عالمی دن کو ”تبدیلیٔ نصاب۔ تبدیلی تعلیم“ کے عنوان و تصور کے تحت منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کے زیر اہتمام یہ دن منانے کا مقصد، ان اہم ترین تبدیلیوں کا اظہار و ادراک ہے، جن کا فروغ دنیا کے ہر فرد کے بنیادی حق تعلیم کے حصول اور ایک پائدار، جامع اور پر امن مستقبل کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔

”یونیسکو“ کی عالمی ”فیوچر آف ایجوکیشن“ رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ، بدلتا ہوا نصاب، اور روشن خیالی پر مشتمل تبدیلی کی تعلیم، مستقبل کو تبدیل کرنے کے لئے فوری طور پر ضروری ہے۔ یہ دن اس بحث کو جنم دے گا کہ عالمی نظام تعلیم کو عوامی کوشش اور مشترکہ بھلائی کے طور پر کیسے مضبوط بنایا جائے، ڈیجیٹل تبدیلی کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اساتذہ کی مدد کس طرح کی جائے اور دنیا کی حفاظت کے حوالے سے ہر فرد میں اجتماعی بہبود اور ہمارے مشترکہ گھر (زمین) میں تعاون کرنے کی صلاحیت کو کیسے فروغ دیا جائے۔

تعلیم، عالمی طور پر تسلیم شدہ ایک اہم انسانی حق ہے۔ تعلیم کا حق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 26 میں درج ہے۔ اس اعلامیے میں دنیا کے ہر فرد کے لئے مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید، بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن، جو 1989 ء میں اپنایا گیا تھا، یہ طے کرتا ہے کہ تمام ممالک اعلیٰ تعلیم کو سب کے لئے قابل رسائی بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم پائیدار ترقی کی کلید ہے۔ جب اقوام متحدہ نے ستمبر 2015 ء میں پائیدار ترقی کے لئے 2030 ء کا ایجنڈا اپنایا تھا، تو بین الاقوامی برادری نے اس بات کو تسلیم کیا کہ تعلیم، دنیا کے تمام 17 اہداف کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ پائیدار ترقی کا ہدف نمبر 4، بالخصوص، 2030 ء تک ”جامع اور مساوی معیاری تعلیم کو یقینی بنانے اور سب کے لئے زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینا“ ہے۔

عالمگیر تعلیم کے حصول کے لئے دنیا کو جو چیلنجز درپیش ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہوئے ادراک ہوتا ہے، کہ تعلیم بچوں کی غربت سے نجات کی سیڑھی ہے اور انہیں امید افزا مستقبل کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں تقریباً 2 کروڑ 58 لاکھ بچوں اور نوعمروں کو اسکول میں داخل ہونے یا تعلیم مکمل کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ 6 کروڑ 17 لاکھ بچے اور کم عمر افراد، بنیادی ریاضی پڑھ نہیں سکتے۔ سب صحارا افریقہ میں 40 فیصد سے کم لڑکیاں لوئر سیکنڈری اسکول مکمل کرتی ہیں، جبکہ تقریباً 40 لاکھ بچے اور نوجوان پناہ گزین، اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان کے تعلیم کے حق کو پامال کیا جا رہا ہے اور یہ عمل سراسر ناقابل قبول ہے۔

’یونیسکو‘ کی فیوچر آف ایجوکیشن رپورٹ کے بارے میں ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کے تناظر میں جب ہم سال 2050 ء کی جانب دیکھتے ہیں اور اگر اس امر پر سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا کرتے رہنا چاہیے؟ اور ہمیں کیا ترک کرنا چاہیے؟ اور یہ کہ تخلیقی طور پر نئے سرے سے ہمیں کیا ایجاد کرنے کی ضرورت ہے؟ تو ’یونیسکو‘ تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے اپنی نئی عالمی رپورٹ میں ان تینوں ضروری سوالات کے جوابات تجویز کر رہا ہے۔ جس رپورٹ کا عنوان ہے ”اپنے مستقبل کا دوبارہ تصور کرنا: تعلیم کے لئے ایک نیا سماجی معاہدہ“ اس نئے سماجی معاہدے کے بنیادی اصول یہ ہیں :

۔ زندگی بھر معیاری تعلیم کے حق کو یقینی بنانا اور تعلیم کو عوامی مفاد کے طور پر فروغ دینا۔
۔ اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندی اور ترقی
۔ اعلی تعلیمی اہداف کا حصول
۔ بنیادی طور پر کم اور اعلیٰ تعلیم میں غیر مساوی شرکت
۔ تدریس اور تحقیق کا بہتر معیار اور فیکلٹی کی استعداد کار میں اضافہ

ان اہداف اور امیدوں کی روشنی میں اگر ہم پاکستان کی صورتحال دیکھیں، تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اور اس پر سونے پہ سہاگہ، پچھلے دو برس میں ’کووڈ۔ 19‘ نے ہمارے تعلیمی نظام کو اور ابتری کا شکار کر دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولوں میں بچوں خواہ عملے کو حاصل سہولیات تو خیر! جو ہیں، سو ہیں۔ پاکستان بھر کے اسکولوں کو سال 2021 ء کے دوران میسر سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو، مستند سرویز کے مطابق، پاکستان کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری 72 فیصد، جبکہ نجی سکولوں میں 75 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

77 فیصد سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں 95 فیصد نجی اسکولوں میں یہ سہولت میسر ہے۔ پینے کے صاف پانی کی سہولت سرکاری اسکولوں میں 68 فیصد، جبکہ نجی سکولوں میں 81 فیصد دستیاب ہے۔ اور 14 فیصد سرکاری، جبکہ 27 فیصد نجی اسکولوں میں کم از کم ایک فعال کمپیوٹر لیب موجود ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ’کووڈ۔ 19‘ کے دوران تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات، پوری نسل کو غریب کر سکتے ہیں۔ عالمی بینک، یونیسکو، اور یونیسیف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، طالب علموں کی اس نسل کو اب ’کووڈ۔ 19‘ وبائی امراض سے متعلقہ اسکولوں کی بندش کے نتیجے میں زندگی بھر کی کمائی میں 17 ٹریلین امریکی ڈالر، یا آج کی عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 14 فیصد کھونے کا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ، ”دی اسٹیٹ آف دی گلوبل ایجوکیشن کرائسز: اے پاتھ ٹو ریکوری رپورٹ“ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں، سیکھنے کی غربت میں رہنے والے بچوں کا حصہ (جو وبائی مرض سے پہلے ہی 53 فیصد تھا) ، اب اسکولوں کی طویل بندش اور فاصلاتی تعلیم کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے ممکنہ طور پر 70 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

’کووڈ۔ 19‘ کے وبائی مرض کے دوران سیکھنے اور سکھانے کے حوالے سے اس سروے میں شامل تقریباً 52 فیصد بچے، تعلیم کو مناسب وقت (دن میں کم از کم ایک گھنٹہ) دینے کے بھی قابل نہیں تھے اور اسکولوں کی بندش کے دوران ان کی پڑھائی شدید متاثر رہی۔ اور جو 48 فیصد بچے اپنی پڑھائی کو وقت دینے کے قابل تھے، ان میں سے ایک تہائی نے بتایا کہ، انہیں اپنے طور پر ریاضی، سائنس اور انگریزی پڑھتے ہوئے مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 50 فیصد طلباء نے بتایا کہ ان میں اسکولوں کی بندش کے دوران خود سے پڑھنے کا اعتماد نہیں تھا۔

کورونا کی اس وبا کے دنوں میں فاصلاتی تعلیم کے حوالے سے دنیا کی طرح پاکستان میں بھی جو چند ایک نئے تجربات ہوئے ہیں، ان میں سے پاکستان ٹیلی وژن کا ٹیلی اسکول اور ہوم سپورٹ، ریڈیو پاکستان کی جانب سے شروع کیا جانے والا ”ریڈیو اسکول“ ، جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے شروع کیا جانے والا ”ڈجیٹل لرننگ پلیٹ فارم“ کارگر ذرائع ہیں۔ (گو کہ انہیں مکمل طور پر پیشہ ورانہ انداز میں چلا پانا ابھی تک ایک خواب ہی ہے۔ ) پی ٹی وی کے ٹیلی اسکول اور ہوم سپورٹ کے بارے میں سروے میں تقریباً 27 فیصد طلباء نے بتایا کہ انہوں نے ان پروگرامز سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔

ایک اور 47 فیصد اور 13 فیصد نے بتایا کہ انہوں نے ’کووڈ۔ 19‘ کے دوران سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے ٹیوشنز سے مدد لی۔ ٹیکنالوجیکل سپورٹ کے حوالے سے تقریباً 27 فیصد طلباء نے بتایا کہ وہ سیکھنے کے لئے ٹی وی پر انحصار کرتے ہیں۔ 16 فیصد نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے سمارٹ فونز کے استعمال کا بتایا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا عالمی یوم تعلیم پر دنیا کو پیغام ہے کہ: ”اب وقت آ گیا ہے کہ تعلیم کے تناظر میں ہماری اجتماعی وابستگی کو پھر سے اجاگر کیا جائے۔“

تو اقوام متحدہ کے اس سال کے اس دن کے تھیم کے مطابق، کیا ”تبدیلیٔ نصاب۔ تبدیلی تعلیم“ کا مقصد فقط یکساں نصاب تعلیم ہی سمجھا جائے؟ جو ہمارے یہاں رائج کرنے کی تیاری تقریباً مکمل ہو چکی ہے؟ یا تدریس کے ڈھنگ کو مزید آسان، موثر اور جدت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، جو ہماری نسلوں کے ذہنوں کو سوال کرنے پر مجبور کرے اور ہم صرف ’ڈگری یافتہ‘ نہیں، بلکہ ’باشعور‘ نسل پروان چڑھانے میں بھی کامیاب ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments