سینوں میں چبھتے ہیں اجالے



ان تصویروں کو غور سے دیکھو، کہ یہ خوش شکل نوجوان کون ہیں؟
کیا آپ پہلی نظر میں پہچان پائے؟ نہیں نا۔
فہیم کمانڈو، نعیم شری، فاروق دادا اور صولت مرزا،
کیا کبھی آپ نے ان کی گمشدہ کہانیوں کو کریدنے کی کوشش کی ہے ایسا کیا ہوا؟
پتہ نہیں اور کتنی تصویریں بھی گمشدہ ہیں۔

کس نے ایک ڈریکولا حیرت کھانی کا پلاٹ ترتیب دیا کہ یہ دلکش جوان ایک دم جلے اور پھر بجھا دیے گئے۔ کراچی کی پتلی گلیوں کی نکڑ پر شب پھر چاند کی باتیں کرنے والے نوجوانوں کی زندگی میں کس نے جلتا سورج پھینک دیا کہ ان کے خواب بھی جل گئے۔ پنڈی سے پنڈ دادن خان تک تو سب اچھا ہے۔

کیا کوئی اس بوڑھے شخص کی کہانی لکھ سکتا ہے جس کو نہاری کی پلیٹ میں گوشت کا لوتھڑا دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔

حسین آباد کی گلیوں میں اب طعام پکتے ہیں وہ بوڑھا شخص حسرت سے دوسروں کو اپنی بچوں کے ساتھ خوش خوش خوش کھانا کھاتے دیکھتا رہتا ہے۔

اور طعام پکنے کی خوشبو میں اسے انسانی خون کی بو محسوس ہوتی ہے۔
جاوید اختر نے پان سنگھ تومر پر خوب شاعری کی ہے
سینے میں چبھتے ہیں اجالے۔
نیندوں میں خنجر
خواب ہیں بنجر
جاؤ ڈھل، جاؤ رات کے تارے
سینے میں چبھتے ہیں اجالے،
نیندوں میں خنجر
خواب ہیں بنجر،
جل گئے چاند تمھارے! ۔

ایک مضمون میں نے بھی لکھا تھا گمشدہ کہانیاں۔ جس کی کچھ سطریں پیش ہیں۔

”کراچی کے اس شخص کا اشارہ ضرور دوں گا جواب لالو کھیت کے چوک پے صبح سے آ کر بیٹھ جاتا ہے جس کے بھائی کو ڈاکٹر بننا تھا اور وہ موت کا سوداگر بن گیا اور آج قریب کے قبرستان میں سینے میں زخم کھائے آسودہ خاک ہے۔

مگر اب اس کا یہ بکھرے ہوئے بالوں والا بھائی چوک پے چلتی ہوئی گاڑیوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے وہ اب رنگوں اور موسموں کی پہچان کھو چکا ہے۔ لیکن جب بھی ایک ”مخصوص گاڑی“ گزرتی ہے تو وہ اس پر ہاتھوں میں خیالی پسٹل بنا کر نشان لگاتا ہے۔ اور پھر انگلیوں سے بنی پسٹل کو منہ کے قریب لاکر پھونک مارتا ہے اور پھر خالی خالی آنکھوں سے دوسری مخصوص گاڑیوں کا انتظار کرنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).