​الہ دین کا جن


ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا سیاسی فلاسفر پیدا ہوا جس کا نام تو چانکیہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو بہت فخر سے کوٹلیا ؔ کہتا اور زیادہ تر اسی لقب سے اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ کوٹلیا ؔ کے معنی ہیں مکار اور فریب کار۔ اس نے اصول سیاست پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’ارتھ شاستر‘ ہے۔ کوٹلیا ؔ نے سیاست کے چند بنیادی اصول دیے، جس میں بتا یا گیا کہ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے، ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک روا رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے۔ غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں، جن سے دوستی رکھی جائے اس میں بھی ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔

دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پراپیگنڈا، تخریبی کارروائیوں اور ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے، وہاں اپنے آدمی ناجائز طریق سے داخل کر کے ففتھ کالم بنایا جائے اور سب کچھ مسلسل اسی انداز سے کیا جائے۔ رشوت اور دیگر اسی قسم کے ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے، دوسرے ملکوں کے آدمیوں کو خریدنے کی کوشش کی جائے اور امن کے قیام کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے، خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔

بد نصیبی یہ ہے ملک خدا داد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس فغان جگر کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر ایک نے اپنے اپنے جن ؔ بوتلوں سے نکالنے شروع کر دیے، چنانچہ اب یہ کیفیت ہے کہ ملک ان جنات ؔکی وحشت سامانیوں اور خرمن سوزیوں کی آماجگاہ بن چکا اور جس آگ سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کی شعلہ انگیزیاں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر صبح جو اخبار میں آتا ہے اس میں شہ سرخیوں سے، ان کی پیدا کردہ تباہیوں اور بربادیوں کی خبریں آتشیں حروف میں لکھی ملتی ہیں۔ ایک توہم، ان خبروں کے عادی سے ہو گئے اور دوسرے اخبارات کی اثر انگیزی کی عمر صرف ایک دن ہوتی ہے، اس لئے ہمیں مجموعی طور پر اندازہ نہیں ہوتا کہ ہماری تباہیاں کس حد تک بڑھ چکی ہیں۔

کبھی کبھار گرمیوں میں سرخ آندھی آیا کرتی تھی، جب آندھی آتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کو قتل ہوا، جو بے گناہ کا خون آسمان پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قتل کی وارداتیں شاذ و نادر ہوتیں کہ ان کی خبر معاشرہ میں سنسنی پیدا کر دیتی تھی۔ پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ صرف شہر قائد میں سینکڑوں قتل اس طرح ہوئے کہ مرنے والے کو علم نہ ہوتا کہ اسے کیوں مارا اور نہ مارنے والا جانتا کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔

نجی نیوز چینلز میں مسلسل ٹکرز اور خبریں ایسی چلتی کہ جیسے کسی الیکشن کے نتائج آرہے ہوں۔ بتدریج معاشرے کا خوگر بھی ایسا ہو گیا کہ ہم ان خبروں کو پڑھ یا سن کر یوں بے حسی سے آگے بڑھ جاتے کہ جیسے ٹمبکٹو کا کوئی واقعہ ہو۔ اب تو قتل، نقب زنی، ڈاکا، رہ زنی، قزاقی اور اغوا کی وارداتیں بھی جیسے معاشرے کا معمول بن چکی۔ معاشرہ میں کوئی امن پسند شریف آدمی اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتا۔ ملک میں قانون کا احترام کہیں باقی نہیں رہا۔

اگر کچھ تھوڑا بہت ہے تو متوسط طبقہ میں، جسے عرف عام میں سفید پوش طبقہ کہا جاتا ہے (یا کہا جاتا تھا ’کیونکہ اب تو وہ طبقہ بھی آہستہ آہستہ ”سیاہ پوش“ ہوتا جا رہا ہے ) ۔ قتل کی وارداتوں سے فسادات کی نئی نئی راہیں کھولی جاتی، اس وقت بھی اگر سیاسی جماعتوں و تنظیموں کی کثیر تعداد کو دیکھا جائے تو کسی نہ کسی مقتول کا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے ضرور نکل آئے گا۔ ایک دہائی قبل کچھ ایسا ہی ہوتا رہا کہ ادھر قتل ہوا اور ادھر ایک پارٹی نے مشہور کر دیا کہ اس قتل کے پیچھے بہت بڑی سازش پنہاں ہے، اس کی نوعیت سیاسی ہے، اس میں فلاں مخالف پارٹی کا ہاتھ ہے، انہوں نے اس کا چرچا کیا اور ان کی پارٹی کے کسی سر پھرے نے اٹھ کر مخالف پارٹی کے کسی فرد پر گولی چلا دی۔

سیاست کی فریب کاریوں میں مخالفانہ پراپیگنڈا، تخریبی کارروائیوں اور ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم، رشوت، جوڑ توڑ، حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس، ایسا سلوک روا رکھنا جیسا کہ دشمنوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہے، کیا یہ سب کوٹلیا ؔ کی سیاسی اصول نہیں جو ہم اپنے ارد گرد روزانہ کی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں۔ ارباب نظم و نسق نے ایک نہایت ابلہ فریب عذر تراش کر رکھا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے یہ لطیفہ سنیے۔

کسی گاؤں میں چوری کی واردات ہو گئی، پولیس بھی آ گئی، گاؤں کی پنچایت، چوہدری سمیت سب لوگ جمع ہو گئے، لیکن چور نے ایسی چابک دستی سے واردات کی تھی کہ ہزار عقل دوڑانے کے باوجود مجرم کا سراغ نہیں مل رہا تھا، ہر ایک اپنی اپنی رائے پیش کرتا لیکن بات آگے نہ بڑھتی، دور کونے میں ایک بوڑھا بیٹھا ان سب کی باتیں سن رہا تھا، جب وہ یہ کچھ سنتے سنتے تنگ آ گیا تو اس نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ ایسی آسان بات بھی تمھاری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں بتاتا ہوں کہ کس کی کارستانی ہے، ہر ایک نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں، پولیس افسر نے بھی کان کھڑے کیے ، بوڑھے نے حقے کا کش لگایا اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام کسی چور کا ہے۔

یہی کیفیت ہمارے ارباب نظم و نسق کی ہے، کہیں کچھ بھی ہو جائے تو فوراً آواز آ جائے گی کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کون کر رہا اور کون کرا رہا ہے۔ یہ سماج دشمن عناصر کا کام ہے، جس کی پشت پر بیرونی طاقتیں ہیں۔ یہ کہہ کر انہیں اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہم نے مفسدین کی نشاندہی کر کے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لاقانونیت کو قابل فخر اور موجب اعزاز سمجھنے سے قوم کی ذہنیت بگڑ چکی، اس کی اصلاح صرف چہرے بدلنے سے نہیں نظام بدلنے سے ہوگی، یوں یہ ’الہ دین کا جن ؔ‘ دوبارہ بوتل میں بند ہو سکے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ملک بیرونی خطرات سے تو شاید محفوظ رہ جائے، لیکن اس جن ؔ کی داخلی تباہ کاریوں کے ہاتھوں سے جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا وہ کسی کے حق میں بہتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments