پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ردی کی ٹوکری


پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری نوکریوں کے لئے ٹیسٹنگ سروس، بھرتیوں کے لئے پنجاب پبلک سروس کمیشن ایک بڑا اور معتبر نام سمجھا جاتا ہے۔ دیگر کمیشنز کی نسبت امتحان سے لے کر انٹرویو اور فائنل بھرتی کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ ممتاز رہا ہے۔ میرے جیسے کئی امیدوار جن کی واحد امیدوں کا مرکز یہ ادارہ رہا ہے، یا ہے، کی ساکھ پربھی کئی سوال اٹھتے رہے۔ مگر امتحانی پراسس اور انٹرویوز کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں نے ہمیشہ اس ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کا اپنے حلقہ احباب میں دفاع کیا۔ تاوقتیکہ یکے بعد دیگرے مختلف پوسٹوں کے امتحانی پرچے آؤٹ ہونے اور تحصیلدار کی پوسٹوں پر سامنے آنے والے سکینڈل کے بعد لاکھوں نوجوانوں کا اس ادارے پر اعتماد بھی مجروح ہوا۔

عملی صحافت کا حصہ بننے کے بعد کئی ایسے قصے کہانیاں علم میں بھی آئیں کہ جس میں امیدواروں نے انٹرویو پراسس میں سفارش کے ذریعے نوکری حاصل کیں۔ چند ایک دوستوں کو میں جانتا بھی ہوں جو اس وقت سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور بقول ان کے انہوں نے انٹرویو کے لئے سفارش کروائی تھی۔ اب اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ یہ اللہ جانے یا پھر وہی امیدوار جانیں۔ بہرحال گزشتہ دنوں ڈی جی پی آر میں انفارمیشن افسر کے لئے امتحان کا انعقاد ہوا۔ اس امتحان میں دیگر پروفیشنل صحافیوں کے ہمراہ میں نے بھی بطور امیدوار حصہ لیا۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن کے لاہور میں اپنے امتحانی مرکز میں ہونے والے اس امتحان کے لئے پہلے کی نسبت اچھے انتظامات کیے گئے تھے۔ بلاشبہ چیکنگ سے لے کر کمرہ امتحان تک عملہ با اخلاق اور تربیت یافتہ تھا۔ سوالنامہ اور جواب نامہ بھی پہلے کی نسبت زیادہ جدید اور زیادہ فرینڈلی تھا۔ بڑے عرصے بعد پیپر دینے کے لئے جانے کی وجہ سے میرے لئے یہ سب چیزیں خوشگوار حیرت کا سبب بنیں۔ بہرحال پیپر شروع ہونے کے بعد ممتحن کی جانب سے ایڈمیشن لیٹر اور کورونا سرٹیفکیٹ جو پبلک سروس کمیشن کی جانب سے ساتھ لانے کی سختی سے تاکید کی گئی تھی، امیدواروں سے لے لئے گئے۔ اب اس میں پبلک سروس کمیشن کی کون سی مصلحت چھپی ہوتی ہے اس کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ آیا پبلک سروس کمیشن کو اپنے سوالنامے کاپی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یا پھر کوئی اور ڈر کہ ایسا کیا گیا۔

میرے وہ قارئین جو کبھی پبلک سروس کمیشن کے امتحانی پراسس کا حصہ نہیں بنے ان کی معلومات کے لئے آگاہ کرتا چلوں کہ پبلک سروس کمیشن کے ایڈمیشن لیٹر پر امیدوار کی ذاتی معلومات (تصویر، شناختی کارڈ کی تصویر، والد کا نام، ڈومیسائل کا ضلع، شناختی کارڈ وغیرہ ) درج ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے کورونا سرٹیفکیٹ پر بھی نادرا میں درج شدہ نام، تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے۔ اب چونکہ یہ سارے کاغذات پنجاب پبلک سروس کمیشن کے عملے کی جانب سے اکٹھے کیے گئے تو مجھ سمیت کئی دیگر امیدواروں کی جانب سے بخوشی دے دیے گئے۔ مگر جب پیپر دینے کے بعد کمرہ امتحان سے باہر نکلے تو کرسی پر کچھ کاغذات کا ڈھیر رلتے ہوئے دیکھا۔ وہاں موجود پرانے دوستوں کو دیکھ کر میں ان سے ملنے جلنے میں لگ گیا تو اس طرف زیادہ دھیان نہیں دیا۔

مگر امتحانی مراکز سے باہر جانے کے بعد کچھ امیدواروں کے ہاتھ میں ایڈمیشن لیٹر دیکھ کر میں نے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ جو کمرہ امتحان کے باہر پڑے کاغذات کا ڈھیر تھا وہ دراصل ہمارے سے اکٹھے کیے گئے ایڈمیشن لیٹرز اور کووڈ سرٹیفکیٹ تھے۔ اب چونکہ امتحان کا وقت ختم ہونے کے بعد امیدوار کو واپس جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو مجھے اپنے پرسنل ڈیٹا کے حوالے سے فکر لاحق ہو گئی۔ چونکہ بینک اکاؤنٹس سے لے کر ہر مالی اور دیگر حساس معاملات تک رسائی کے لئے شناختی کارڈ، تاریخ پیدائش، پتہ اور ای میل سمیت موبائل نمبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے پبلک سروس کمیشن کے ویب سائیٹ پر دیے گئے یو اے این نمبر پر رابطہ کیا۔

یہ کال دراصل کسی فلم کے سین کی طرح ہی تھی، کسی بشیر صاحب نے میری کال سنی انہیں میں نے اپنا مدعا تفصیلا آگاہ کیا تو انہوں نے ہولڈ پر کروانے کے بعد کسی اور صاحب کو میری کال ٹرانسفر کردی۔ ان صاحب کو میں نے دوبارہ سے ساری کہانی بیان کی تو انہوں نے میرے اوپر سوال داغ دیا کہ آپ نے باہر پڑی کرسیوں سے اپنے کاغذات کیوں نہیں اٹھائے؟ جس پر انہیں آگاہ کیا کہ بھائی اگر میرے علم میں ہوتا کہ ان کے عملے کے لوگوں نے ان کاغذات کو باہر جاکر پھینک دینا تھا تو کس پاگل نے وہ کاغذات وہیں پڑے رہنے دینے تھے۔ ان صاحب نے بھی ہولڈ کرنے کے بعد کسی اور خاتون کو کال ٹرانسفر کی۔ جنہیں الف سے ے تک کہانی سنانی پڑی تو انہوں نے بھی حسب توقع مجھے ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ آپ کو پیپر اٹھا لینے چاہیے تھے۔

ان تینوں کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ ہمارے سے اکٹھے گئے کاغذات کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ کیا یہ کاغذات کچرے کی ٹوکری کی نذر ہوتے ہیں یا پھر کسی پکوڑے والے یا کباڑیے کی دکان تک پہنچتے ہیں۔ قصہ مختصر ان خاتون نے مجھے سیکریٹری یا چیئرمین پبلک سروس کمیشن کے نام تحریری درخواست لکھ کر شکایت درج کروانے کا مشورہ دیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پنجاب بلک سروس کمیشن کی جانب سے امیدواروں کے پرسنل ڈیٹا کے ساتھ ایسا کھلواڑ پتہ نہیں کب سے جاری ہے۔ پتہ نہیں کتنے امیدوار لاعلمی میں اپنے ذاتی ڈیٹا لیک کروا چکے ہیں۔

کیا پنجاب پبلک سروس کمیشن کو موجودہ سائبر کرائمز کی صورتحال میں ایسی کسی پریکٹس کو فوری طور پر ختم نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اگر کسی نا اہلی غفلت کی وجہ سے کسی کا ڈیٹا کسی دہشت گردی کی واردات میں استعمال ہو گیا یا پھر کسی جعلی بینک اکاؤنٹ یا سم نکلوانے میں مددگار ہوا تو وہ امیدوار کس سے جاکر انصاف مانگے گا؟ بلکہ امیدوار کو تو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اس کا ڈیٹا لیک ہی کیسے ہوا۔ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس بات کو ماننے پر تیار ہوں گے؟ کبھی بھی نہیں۔ میری چیئرمین پبلک سروس کمیشن سے ہم سب کے پلیٹ فارم کے ذریعے استدعا ہے کہ خدارا اس طرح کی اور اس جیسی کوئی اور پریکٹسز کی جا رہی ہیں کو فوری طور پر ختم کیا جائے بلکہ امیدواروں کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments