افغانستان سے واپس آنے والے شمالی وزیرستان کے متاثرین خدا کے رحم و کرم پر


دو ہزار چودہ میں آپریشن ضرب غضب کی وجہ سے اپنے جنت جیسے وطن کو چھوڑ کر افغانستان جانے والے شمالی وزیرستان کے متاثرین کو بالآخر واپس آنے کی اجازت تو مل گئی۔ پورے سات سال تک اپنے ملک سے باہر افغانستان کے صوبہ خوست (بولان کیمپ) میں خیموں میں رہ کر گرمی و سردی کو برداشت کیا۔ ان تکالیف و مشکلات کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جس نے ان حالات کا سامنا کیا ہو یا جس کے جسم میں ایک دردمند دل ہو۔ بیس پچیس دنوں سے یہ متاثرین مرحلہ وار طور پر براستہ غلام خان آ رہے ہیں۔

اور ہر روز تقریباً تیس چالیس گاڑیوں پر مشتمل قافلہ میرانشاہ سے بنوں کی طرف گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ جس کے سرے اور آخر میں سیکورٹی گاڑیاں ہوتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں یہ خیال آ رہا تھا کہ شاید ان متاثرین کو بکاخیل کیمپ لے جا رہے ہیں یا کہیں اور جگہ پر حکومت نے ان کے لیے انتظامات کیے ہیں۔ لیکن سیدگئی کے علاقے میں خیموں میں موجود وزیرستانیوں کے حالت زار کی ویڈیو دیکھ کر جن کے خیمے پانی سے بھرے ہوئے ہیں اور دو دن پہلے ایک واقعے نے مجھے اس آرٹیکل کو لکھنے پر مجبور کیا۔

اکیس جنوری کو صبح سے شام تک مسلسل بارش برس رہی تھی۔ اذان مغرب کا وقت قریب تھا میں دوستوں کے ساتھ اپنے گیسٹ روم میں محو گفتگو تھا کہ اسی دوران کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ باہر ایک رکشہ کھڑا ہے جس میں عورت سمیت چار بچے سردی سے کانپ رہے ہیں اور دو بندے میرے طرف آ رہے ہیں قریب جا کر مسئلے کا پوچھا۔ تو رکشہ ڈرائیور نے جواب میں کہا کہ اس بندے کا ابھی افغانستان سے واپسی ہوئی ہے اس بارش میں پورا دن خالی گھر کی تلاش میں گزرا۔

مگر کہیں بھی اس بے چارے کو گھر نہیں مل رہا۔ میں اس کے ساتھ کرائے پر آیا ہوں۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی خالی گھر ہو ورنہ آج رات کا کوئی بندوبست کرے۔ ان بچوں کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھ کر میں اپنے آنکھوں کو قابو نہیں کر سکے۔ آس پاس خالی گھروں کو تلاش کیا مگر نہیں ملا۔ آخر کار مجبور ہو کر گھر کا ایک کمرہ ان کے لئے خالی کرنا پڑا۔ کیونکہ بارش کے ساتھ ساتھ موسم بہت زیادہ سرد تھا۔ اور میرا دل اجازت نہیں دے رہا تھا کہ اس ٹھنڈی اور برساتی موسم میں یہ بچے کھلے آسمان تلے رات گزاریں۔

رات کے وقت کھانے کے بعد مہمان سے بولان کیمپ میں گزرے ہوئے سات سال کے بارے میں پوچھا تو پورے سات سال کی تکالیف و مشکلات اور دل دہلانے والے واقعات کو سن کر جو وہاں پر ان تین ہزار سے زائد خاندانوں پر گزرے ہیں مجھے گہرے سوچ میں مبتلا کیا کہ آخر ہم بھی پاکستانی ہیں اس ملک میں پلے بڑھے ہیں پاکستان کے سلامتی کی خاطر ہم نے گھر بار چھوڑ کر اپنی جائیدادیں سمیت سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کیا لیکن آج سات سال بعد حکومت ان متاثرین کو نہ اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دے رہے ہیں اور نہ ان کے لئے کوئی اور جگہ انتظامات کیے ہیں۔

سکیورٹی فورسز اور شمالی وزیرستان کے انتظامیہ متاثرین کو غلام خان بارڈر سے لے کر سیدگئی چیک پوسٹ پر اس سرد اور برساتی موسم میں بے یار و مددگار چھوڑتے ہیں۔ ان میں سے جن کے پاس خیمے ہوتے ہیں وہ وہاں سیدگئی کے علاقے میں ٹینٹ لگا کر رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ اور جن کے پاس خیمے نہیں ہوتے وہ گھروں کی تلاش میں ادھر ادھر ٹوکرے کھانے پر مجبور ہیں۔ لہذا ہم پاکستان کے ارباب اختیار لوگ، اعلیٰ حکام، سکیورٹی کے ذمہ دار افسران اور شمالی وزیرستان کے ایڈمنسٹریشن سے اپیل کرتے ہیں کہ ان متاثرین اور ان کے بچوں کو اپنے جگر گوشوں کی نظر سے دیکھ کر ان کی زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کی بجائے مرہم لگائیں۔ اور بہتر سے بہترین انتظامات کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments