پاکستانیو گھبرانا نہیں۔ سنو میں نہیں چھوڑوں گا، چوروں کو ڈاکووں کو۔ یہ بڑی بڑی چوری کی گاڑیوں پر پھرتے ہیں۔ ہٹے کٹے ہیں۔ بیماری کے ڈرامے کرتے ہیں۔ ان کے تو پلیٹ لٹ ہی اتنے شیطان ہیں، قابو میں نہیں آتے، کبھی اوپر جاتے ہیں کبھی بالکل نیچے آ جاتے ہیں، یہ خود کہاں قابو آئیں گے۔ ہم شریف لوگ ہیں یہ مافیا ہیں۔ مافیاز نے پاکستان کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ کوئی چینی مافیا ہے، کوئی آٹا مافیا ہے، کوئی ڈالر مافیا ہے، کوئی شریف مافیا اور کوئی زرداری مافیا ہے۔

ان مافیاز کی نسلیں جونکوں کی طرح میرے پاکستانیوں کا خون چوس رہی ہیں۔ ایک وہ شہباز ہے، اتنا بڑا شوباز ہے تین چار پل بنا کے سمجھتا ہے میں نے لاہور میں ترقی کروا دی، مداری کہیں کا، ان کو تو جیل میں ہونا چاہیے۔ میں نے پاکستان میں مہنگائی کم کردی ہے۔ پاکستان اب دنیا کا سستا ملک ہے۔ یہاں دھوپ مفت ملتی ہے۔ کتنے دریا ہیں جو سمندر کا پیٹ بھرتے ہیں اتنا پانی فالتو ہے۔ اسی لئے تو ہم نے اپنے دو دریا ہندوستان کو دے دیے تھے۔ شکر کرو پاکستانیو ہم سے تین دریاؤں کے سیلاب نہیں سنبھالے جاتے، پانچوں دریاؤں کا سیلاب کیسے سنبھالتے۔ اسی وجہ سے عقلمندی کے ساتھ ایوب نے دو دریاؤں سے جان چھڑا کے ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا تھا۔

ہم پاکستان کا پاسپورٹ اوپر لے کر جائیں گے۔ سنو! ہم نے غریب کو اوپر اٹھانا ہے۔ اتنا اوپر کہ آسمان تک۔ قوم کو آسمان کے تارے دکھانے ہیں۔ یہ بیچارے سادے لوگ ہیں یہ شہروں میں بتیاں دیکھنے جاتے ہیں۔ شہباز کی بنائی لال پیلی گاڑیوں میں بیٹھنے کے لئے لائنوں میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں سڑکیں بنانے سے قومیں اوپر نہیں اٹھتیں۔ قوموں کو اوپر اٹھانے کے لئے پاسپورٹ نیچے لانا پڑتا ہے تاکہ یہ باہر کے ملکوں میں نہ جائیں۔

وہاں جائیں گے تو بڑی بڑی گندی سڑکیں دیکھ کر اپنے وطن کی خوشبو سے گندھی کچی مٹی کی سڑکوں کی عظمت کم کرنے لگیں گے۔ ان مافیاز نے ڈالر کو پکڑ کے رکھا ہوا تھا۔ ہم نے ڈالر کو آزادی دلائی۔ ہماری ایکسپورٹ بڑھی ہے۔ ہم کارخانوں کو سستی بجلی دے رہے ہیں اور گیس بھی۔ عام آدمی کا کیا ہے اس نے تو خوامخواہ میں بجلی ضائع ہی کرنی ہوتی ہے اس نے کوئی زرمبادلہ تھوڑا دینا ہوتا ہے۔ اسی لئے میں نے دیہاتوں میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کردی ہے اور ریٹ بڑھا دیے ہیں تاکہ یہ خوامخواہ بجلی اور گیس ضائع نہ کریں۔ یہی گیس ہم کارخانوں کو سستی دے رہے ہیں۔ یہ نواز دور میں غریب ہو گئے تھے، میں انہیں دولت مند کردوں گا۔

سنو پاکستانیو میں نے کرپشن کے بادشاہ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں بھیج دیا ہے تاکہ وہ انگریز کی ترقی اور ایمانداری کو سیکھے تو اسے شرم آئے کہ پاکستان کیوں رہنے کے قابل نہیں۔ میں نے تو اپنے بچے شروع سے ہی انگلینڈ رکھے ہوئے ہی۔ کیونکہ پاکستان کو شریفوں نے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا، اور ان کے منشی کا حال دیکھو میرے ڈر سے وہ اپنی حکومت ہی چھوڑ کے لنڈن بھاگ گیا۔ بڑا ماہر معاشیات بنا پھرتا تھا۔ سائیکلوں کی مرمت کرتے کرتے کیسے ارب پتی بن گیا۔

قرضے لے لے کر ڈالر کی خدمت کرتا رہا۔ ڈالر کو غلام سمجھتا تھا۔ اسد عمر نے آتے ہی ڈالر کی ہوا نکال دی۔ پاکستانیو اسد عمر عظیم ساتھی ہے ڈالر کو دیکھو کیسے ذلیل کیا۔ اسے کوئی جائے پناہ ہی نہیں مل رہی۔ میرے پاکستانیو میں نے تو سی پیک بھی باجوے کے حوالے کردی تھی۔ نواز نے اتنی مہنگی سڑکیں بنائی ہیں۔ وہ پاکستان کو چین کا غلام بنانا چاہتا تھا۔ اس کے دور میں جگہ جگہ چینی پھرتے تھے۔ سارے ملک کے آوارہ کتے اور گدھے کھائی جا رہے تھے، میں نے ریاست مدینہ بنا کر ان کو حرام کھانے سے روک دیا۔ اب دیکھو سی پیک کہاں ہے۔ اگر کہیں نظر آئے تو مجھے بتاؤ۔

سنو پاکستانیو کرپشن اوپر سے ہوتی ہے۔ نیچے والوں کے ہاتھ میں کیا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے مگرمچھ ہیں یہ کرپشن کے بادشاہ ہیں۔ وزیر اعظم ان سے ملا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کرپشن کرے گا تو سارے کریں گے۔ میں اس لئے بڑے بڑے چوروں اور مافیاز پر ہاتھ ڈالتا ہوں۔ دیکھ لینا یہ شہباز شریف جلد ہی سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔ میں نے چھوٹے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ یہ آزاد ہیں۔ پولیس افسر، تھانیدار، تحصیلدار وغیرہ یہ چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔

کتنی کرپشن کر لیں گے، کر لیں، قومی خزانے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کون کہتا ہے ملک اوپر نہیں جا رہا ۔ ملک کرپشن میں سولہ درجے ترقی کر گیا ہے۔ اور یہ سب چھوٹے افسروں کی وجہ سے ہوا ہے۔ تھانیدار اگر پرچہ کاٹنے کے، جیل سے بچانے کے، کسی سے پیسے لیتا ہے تو کیا برا کرتا ہے۔ پرچہ کٹے گا، بندہ جیل جائے گا، جیل جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ میں جیل بڑے بڑے چوروں کے لئے خالی رکھتا ہوں۔ اگر یہ چھوٹے چوروں سے بھر گئی تو جب بڑے چور پکڑوں گا تو انہیں کہاں رکھوں گا۔

پھر جیل بھرے گی تو جیلوں کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ یہ خرچے ہی تو کم کرنے ہیں۔ میرا خرچہ دیکھو اور نواز شریف کے خرچے دیکھو۔ وہ جہازوں پر پھرتا ہے۔ میں تو چھوٹے سی ہیلی کاپٹر پر بنی گالا سے وزیر اعظم ہاؤس تک آتا جاتا ہوں۔ میرے تو پلیٹ لیٹ بھی پورے ہیں۔ دل بھی کافی بڑا ہے۔ خون کی نالیاں بھی کھلی ہیں، نواز شریف کی تو خون کی نالیاں تک تنگ ہوئی پڑی ہیں۔ اس کا تو دل بھی اتنا کمزور ہے، پھر بھی جہاز پر چڑھ کر وزیر اعظم ہاؤس آنے کے لئے مرا جاتا ہے۔

سنو پاکستانیوں نواز شریف نے تو وزیر اعظم ہاؤس کو بھی بھینسوں کا باڑہ بنایا ہوا تھا، پینڈو کہیں کا۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں وزیر اعظم ہاؤس میں بھینسیں اور کٹے رہتے ہوں۔ آپ کو پتہ ہے یہ کٹے کیا ہوتے ہیں۔ یہ کھل جائیں تو سارا دودھ پی جاتے ہیں۔ میں آپ کو قرضے پر کٹے دوں گا۔ ان آپ نے پال کر بڑا کرنا ہے۔ ان کو کھلنے نہیں دینا۔ اگر آپ میری اس نصیحت پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک خوشحال ہو جائے گا۔

سنو پاکستانیو ایوب خان اور پرویز مشرف نے ملک کو ترقی دلائی تو اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے دور حکومت میں سارے کٹے باندھ کے رکھے تھے، کوئی کٹا کھلنے نہیں دیا۔ مجھے نہ کٹے باندھنے آتے ہیں نہ کھولنے آتے ہیں، اس لئے میں بنی گالا میں رہتا ہوں۔ یہ میرا اپنا گھر ہے۔ اپنی محنت سے بنایا ہے۔ محنت میں عظمت ہے۔

سنو پاکستانیو میں وزیراعظم ہاؤس میں آیا ہی اس لئے ہوں کہ دیکھوں یہاں کیا تماشے ہوتے ہیں۔ کیا اور کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ میں تو کرکٹ کا ماہر تھا، پوری دنیا میں میری دھوم تھی۔ مجھے کیا ضرورت تھی، وزیر اعظم ہاؤس میں آ کر گھٹیا قسم کی ان ڈور گیمز کھیلنے کی، جو بہت ہی گھٹیا لوگوں کے ساتھ کھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ کھیل میں مجبوراً کھیل رہا ہوں، میں یہ کھیل بھی سیکھ چکا ہوں۔ اب میں خطرناک کھلاڑی بن چکا ہوں۔

اب کوئی مجھے نکالے گا تو میں اور خطرناک بن جاؤں گا۔ وہ نواز تھا جو، کیوں نکالا، کیوں نکالا، کی فریادیں کرتا رہا۔ میں تو کہتا ہوں مجھے نکال کے دیکھو۔ مجھے تو پتہ ہے کون کون کس کی پرچی پر یہاں وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھا ہے۔ مجھے تو سارے کھیل تماشے اور پرچیوں کا پتہ چل گیا ہے۔ نکال کے دیکھیں پھر بتاؤں گا۔