کیا منافقوں کے ہجوم میں اپنی جینوئن شخصیت کے ساتھ جیا جا سکتا ہے؟


ہم نے اپنے منافقانہ رویوں کی وجہ سے اپنا معاشرتی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا بنا لیا ہے جس میں اوریجنل شخصیت کو جھیلنے کی سکت ہی نہیں رہی، ہر طرف بہروپیوں کا راج ہے مقبول خول پہن کر بہروپیے عوام کے ذہنوں کو بہلاتے رہتے ہیں جیسے ہی کوئی بندہ ان کے ”پرسونا ماسک“ اتار کر حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے باریش طبقے کو تو چھوڑ دیں ان سے کیا گلہ مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کلین شیون سوٹڈ بوٹڈ بظاہر سیکولر مگر اندر سے پختہ روایتی قسم کے لوگ اپنی گند ذہنی کا اظہار اپنے کمنٹس کی صورت میں کرنے لگتے ہیں۔

ہماری نسلوں کی تباہی میں اتنا ہاتھ روایتی کلاس کا نہیں ہے جتنا سیکولر خول میں چھپے ”جنونی روایتی کلاس“ کا ہے جو محض بہروپیے بن کر استاد، ڈاکٹر، انجینئر، کلین شیو، روحانی صوفی یا موٹی ویٹر سپیکر کی فیلڈ جوائن کر کے اپنی نسلوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ البتہ مذہبی کلاس کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ جو دکھتے ہیں وہی کہلاتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی قسم کا خول اپنے چہرے پر نہیں چڑھاتے۔ اس سے بڑی بد بختی ہمارے معاشرے کی کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے مطالعہ کے ماحصل اور مشاہداتی حقائق کو ”ایز اٹ از“ لکھنے کی بجائے ہزاروں ”منافقانہ فلٹرز“ کا سہارا لینا پڑتا ہے ورنہ ننگا سچ آپ کے گلے پڑ سکتا ہے اور ”جنونی بریگیڈ“ فتویٰ بازی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

تدریسی پیشہ اس لحاظ سے کمال کا ہوتا ہے کہ اس میں ایک استاد کا سامنا مختلف اذہان سے ہوتا رہتا ہے اور گفتگو کی صورت میں ہزاروں پرتیں کھلتی ہیں زندگی کے اسی پہلو میں لاتعداد حقیقتیں چھپی ہوتی ہیں مگر ہمارے اساتذہ کو ”سوال کرنے کا کلچر“ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اپنا مخصوص رٹا رٹایا لیکچر اسلامیات کے تڑکے کے ساتھ ڈلیور کر کے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں اور اپنے پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز میں ”انتہائی دیانت داری“ سے انہی بچوں کو پڑھانے میں مشغول ہوتے ہیں۔

میں آج اپنی فیلڈ کے تین پروفیسرز کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جنہیں میں بالمشافہ مل چکا ہوں ان میں سے 2 تو ریٹائر ہو چکے ہیں اور ایک حاضر سروس ہیں۔ یہ بظاہر تو استاد کے مرتبہ پر فائز تھے مگر اپنی فیلڈ کے سبجیکٹ کو اگنور کر کے ایک ”روایتی مولوی“ کا کردار نبھاتے رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کا المیہ ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر تو مبلغ ہوتے ہیں مگر حادثاتی طور پر تدریسی فیلڈ میں آ کر پڑھانے کی بجائے اپنے مبلغی کے شوق کو پورا کرنے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں۔

اس کا لازمی نتیجہ ایک کنفیوز ڈیجنریشن کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اس قسم کے مبلغین سے پڑھی ہوئی جنریشن بھی یہی کام کرنے لگتے ہیں اور طالب علم کی تعلیم کا اصل مقصد اس قسم کی ذہنیت کی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے۔ حاضر سروس پروفیسر سے بات شروع کر لیتے ہیں جو کہ پی ایچ ڈی ہیں ان کا یہ معمول ہم اکثر دیکھتے رہے ہیں کہ وہ جب بھی مختلف کلاسوں میں ملٹن کا ”پیراڈائز لاسٹ“ پڑھانے کا آغاز کیا کرتے تھے تو وہ شروع میں یہ کہہ دیتے تھے کہ

” ملٹن کا یہ شاہکار کفریہ باتوں پر مشتمل ہے چونکہ اس میں شیطان کی گستاخانہ تقریروں کا تذکرہ ہے جنہیں ہمیں بوجہ مجبوری امتحان پاس کرنے کی خاطر پڑھنا پڑتا ہے تو عزیز طلباء سے میری گزارش ہے کہ وہ گھر جا کر “ توبہ استغفار ”کی تسبیح دو رکعت کے ساتھ ضرور پڑھ لیں تاکہ گناہ سے بچ سکیں، میں خود تو اس ڈرامے کو پڑھانے سے پہلے پیشگی یہ کام گھر سے کر کے آتا ہوں“

اس قسم کی تھنکنگ کو آپ کیا نام دینا چاہیں گے وہ آپ پر چھوڑ دیتا ہوں؟ ایک سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر آپ کو انگلش ادب سے اتنی نفرت ہے تو پھر چھوڑ دیں اس دھندے کو ، کچھ اور بھی تو اپنے ذوق کے مطابق کیا جاسکتا ہے مگر منافقت کا لیول دیکھیں کہ ”پاپولر رجحان“ کو اختیار کر کے پیسہ بھی بنانا ہے اور بونس کے طور پر پاک بازی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے تاکہ سماجی قد برقرار رہے چاہے اس کے لیے وقتی طور پر کوئی بھی خول پہننا پڑے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں سب چلتا ہے بھائی۔

دوسرے پروفیسر جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں وہ ریاضی پڑھایا کرتے تھے، کلین شیو مگر سر پر ٹوپی سجائے رکھتے تھے ان سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے بتایا کرتے تھے کہ یہ سر سبجیکٹ کے متعلق تو کچھ بھی نہیں پڑھاتے بلکہ روزانہ کلاس روم میں درود ابراہیمی کا ورد کرواتے رہتے ہیں۔ جو بچہ سب سے زیادہ درود پڑھتا وہ اسے اپنے مخصوص تعریفی جملوں سے نوازتے اور سال میں ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے کا مقابلہ کرواتے جو بچے ٹاپ کرتے وہ ان کو اپنی لکھی ہوئی مذہبی کتابوں کا تحفہ انعام میں دیتے تھے۔

جب تک یہ پروفیسر صاحب کالج میں تعینات رہے وہ اپنے اسی سلسلہ کو زور و شور سے چلاتے رہے اور جس کام کی وہ تنخواہ لیتے تھے اسے مسلسل نظرانداز کرتے کرتے آخر ریٹائر ہو گئے۔ تیسرے پروفیسر جن کی فیلڈ کیمسٹری تھی یہ بھی دوران ملازمت اپنے مضمون سے انصاف نہیں کر پائے، زمیندار تھے مگر حادثاتی طور پر ٹیچنگ فیلڈ میں آ گئے تھے اور ان کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور تھا جو وہ اب بھی اکثر اپنے دوستوں سے بولتے رہتے ہیں کہ ”بطور پروفیسر مالک نے میری لاج رکھ لی ورنہ میں اس فیلڈ کے بالکل قابل نہیں تھا“ لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ متقی پرہیز گار ہونے کے باوجود آپ نے سروس بھی مکمل کر لی اور اپنی آن بان کو بھی برقرار رکھا؟

بالکل اسی طرح میں نے کرکٹرز رضوان کے حوالہ سے بات کی تھی کہ پروفیشنل ازم اور آپ کے ”ذاتی ازم“ میں واضح فرق ہونا ضروری ہے کیونکہ ملاوٹ کسی بھی طرح کی ہو اس سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے اور اگر اپنی ملاوٹ زدہ ذہنیت کا مظاہرہ آپ اپنے پروفیشن میں کرنے لگتے ہیں تو یہ نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ دہرے رویے شخصیت میں تضاد پیدا کرتے ہیں آپ جو بھی بننا چاہتے ہیں ضرور بنیں یہ آپ کا ذاتی حق ہے مگر جس فیلڈ کو مکمل سوچ بچار کے بعد اختیار کر چکے ہیں پھر اس فیلڈ کے تقاضوں کو پورا کرنا آپ کے اخلاقی فرائض میں شامل ہو جائے گا جس سے روگردانی کرنے کا مطلب یا تو آپ اس فیلڈ میں ”مس فٹ“ ہیں یا خوامخواہ کا کوئی مقبول چولا پہن کر خود کو مقدس گائے کے مرتبہ پر ٹکانے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔

میرا مقصد اس قسم کے رویوں کی جانکاری دینا ہے کہ جو بھی آپ کی ذات کا سچ ہے اس کے ساتھ کھرے طور پر جڑے رہیں اور کوئی بھی بناوٹی روپ اختیار کیے بغیر اپنے مشن پر گامزن رہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں فرق اس وقت ضرور پڑتا ہے جب آپ اپنی فیلڈ میں ملاوٹی رویوں کا اظہار کر کے مقبول عام بننے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں۔ ان ملاوٹی رویوں کی وجہ سے نسلیں سنورنے کی بجائے بھٹکنے لگتی ہیں انہی جبری اور ملاوٹی رویوں کی وجہ سے ذہین اور باشعور افراد اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر اپنی آزاد سوچ کا اظہار کرنے کے لیے یورپ جا بستے ہیں اور ان کی نالج اکانومی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں مگر ہمارا ان دماغ والے لوگوں سے کیا لینا دینا ہمیں مکس مال ہی اچھا لگتا ہے۔ نہیں یقین آتا تو ہمارے 1992 ورلڈ کپ کے ہیرو جنہوں نے اپنی زندگی کے سارے شوق بڑے اعلیٰ طریقے سے پورے کیے اور اب روحانی لبادہ پہن ملک کو جس جگہ پہنچا دیا ہے اس سے آگے کیا ہو گا سوچتے جائیں، حادثاتی بندے جس فیلڈ میں بھی آ جائیں اس فیلڈ کی خیر نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments