بہادر شاہ ظفر کا دسترخوان


Bahadur shah zafar 1858

منشی فیض الدین دہلوی صاحب نے ایک کتاب ”بزم آخر“ تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں مغلیہ عہد کے آخری دنوں میں بہادر شاہ ظفر کے محل کے حالات درج کیے گئے ہیں۔ ان چونچلوں کو پڑھ کر کم از کم یہ سمجھ آجاتی ہے کہ صدیوں سے قائم سلطنت ہاتھ سے کس طرح نکل گئی۔ اس کتاب کا مطالعہ اپنی ذات میں عبرت کا سامان ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں سلطنت تو کب سے نکل چکی تھی۔ اب نام کا بادشاہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے پنشن لے کر گزارا کرتا تھا۔

لیکن اس دور میں بھی اگر صرف کھانوں کا ذکر پڑھیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اس کتاب میں منظر کشی کی گئی ہے کہ بادشاہ سلامت دن کے وقت کام کر رہے ہیں۔ اور کام کرتے ہوئے بھی منظر یہ ہے کہ دائیں طرف ملکہ اور دوسری بیویوں اور باندیاں بیٹھی ہیں اور بائیں طرف شہزادے، ان کی بیگمات اور شہزادیاں بیٹھی ہیں۔ اور اس طور سے گھرے ہوئے بادشاہ سلامت کام کر رہے ہیں۔ عرضیوں پر دستخط فرما رہے ہیں۔ عرض معروض ہو رہی ہے۔ جب ڈیڑھ بجے تو دوپہر کے کھانے کا غل غپاڑا بلند ہوا۔ یہ تیاری کس طرح ہوتی تھی۔ اس کے متعلق اس کتاب میں لکھا ہے :

”کہاریاں، کشمیرنیں دوڑیں۔ دیکھو! ہنڈکلیا، چھوٹے خاصے، بڑے خاصے کے خوان سر پر لیے چلی آتی ہیں، خوانوں کا تار لگ رہا ہے۔ ایلو! خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دستر خوان بچھایا۔ بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھ گز اونچی چوکی لگا، اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوان بچھا، خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا، خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ اس پر بادشاہ خاصہ کھائیں گے ؛ باقی دسترخوان پر بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کھانا کھائیں گی۔ لو اب کھانا چنا جاتا ہے۔“

Bahadur Shah with sons Mirza Jawan Bakht & Mirza Shah Abbas (Burma)

اب دیکھتے ہیں کہ اس بادشاہ کے دسترخوان پر کتنی اقسام کی روٹیوں کو سجایا جاتا تھا۔ ان کے نام ملاحظہ ہوں :

”چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، بری روٹی، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیر مال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، باقر خانی، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ، نان گلزار، نان قماش، نان تنکی“

آپ نے تمام عمر اتنی اقسام کی روٹیاں دیکھی نہیں ہوں گی۔ 23 اقسام کی روٹیاں اور نان لال قلعے کے دسترخوان کی زینت بنتے تھے۔ بہر حال بادشاہ سلامت صرف روٹیوں پر گزارا نہیں کرتے تھے۔ ان کو پلاؤ بھی بہت مرغوب تھے۔ ان کے دستر خوان پر جو مختلف اقسام کے پلاؤ چنے جاتے تھے ان کے نام یہ ہیں

”یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نکتی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، چلاؤ، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، شولہ، کھچڑی، قبولی، طاہری، متنجن“

یعنی 26 اقسام کے پلاؤ سے ان احباب کے پیٹ کا دوزخ بھرا جاتا تھا۔ یہ تو پلاؤ کا ذکر تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے ہونہار باورچی کتنی قسم کے کباب بنا کر ظل سبحانی کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ان کبابوں کے نام یہ ہیں :

” سیخ کے کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب“

گویا کبابوں کی نو اقسام شاہی دسترخوان کی زینت بنتی تھیں۔ کچھ متفرق قسم کے لوازمات کے نام نیچے درج کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دلمہ ایک قسم کا سالن ہے جس میں قیمے کو سبزیوں کے اندر بھرا جاتا ہے۔

” بورانی، رائتا، کھیرے کی دوغ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، سمنی، آش، دہی بڑے، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، آلو کا دلمہ، بینگن کا دلمہ، کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال“

مناسب ہو گا اگر یہ جائزہ لیں کہ اس دسترخوان پر کون سی میٹھی اشیاء سجائی جاتی تھیں۔ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں

” روٹی کا حلوا، گاجر کا حلوا، کدو کا حلوا، ملائی کا حلوا، بادام کا حلوا، پستے کا حلوا، رنگترے کا حلوا، آم کا مربا، سیب کا مربا، بہی کا مربا، ترنج کا مربا، کریلے کا مربا، رنگترے کا مربا، لیموں کا مربا، انناس کا مربا، گڑہل کا مربا، بادام کا مربا، ککروندے کا مربا، بانس کا مربا مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ اپنے اپنے موسم میں۔ اور گیہوں کی بالیں مٹھائی کی بنی ہوئیں، حلوا سوہن گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، حبشی لڈو موتی چور کے، مونگ کے، بادام کے، پستے کے، ملائی کے۔ لوزات مونگ کی، دودھ کی، پستے کی، بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، در بہشت، بالو شاہی، اندرسے کی گولیاں، اندرسے وغیرہ“

ان کھانوں کو فہرست تو بہت زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ سلامت ایک دن میں یہ کچھ تناول نہیں فرماتے ہوں گے۔ ورنہ رنگون جانے کی نوبت بھی نہ آتی۔ لیکن دوپہر کا کھانا کس اہتمام سے کھایا جاتا تھا؟ اس کے بارے میں اس کتاب میں لکھا ہے

”یہ سب چیزیں قابوں، طشتریوں، رکابیوں، پیالوں، پیالیوں میں قرینے قرینے سے چنی گئیں ؛ بیچ میں سفل دان رکھ دیے، اوپر نعمت خانہ کھڑا کر دیا کہ مکھیاں دستر خوان پر نہ آویں۔ مشک، زعفران، کیوڑے کی بو سے تمام مکان مہک رہا ہے۔ چاندی کے ورقوں سے دستر خوان جگمگا رہا ہے۔ چلمچی، آفتابہ، بیسن دانی، چنبیلی کی کھلی، صندل کی ٹکیوں کی ڈبیاں ایک طرف زیر انداز پر لگی ہیں۔ رومال، زانو پوش، دست پاک، بینی پاک ایک طرف رومال خانے والیاں ہاتھوں میں رومال لیے کھڑی ہیں۔

جسولنی [وہ عورت جو شاہی محل میں خبر پہنچانے پر مقرر ہوتی تھی ]نے عرض کیا:“ حضور! خاصہ تیار ہے ”۔ بادشاہ اپنی تپک پر چوکی کے سامنے آن کر بیٹھے۔ دائیں طرف ملکۂ دوراں اور اور بیگماتیں، بائیں طرف شاہزادے، شاہزادیاں بیٹھیں۔ رومال خانے والیوں نے زانو پوش گھٹنوں پر ڈال دیے، دست پاک آگے رکھ دیے۔ خاصے کی داروغہ نے خاص خوراک کی مہر توڑ، خاصہ کھلانا شروع کیا۔ دیکھو! بادشاہ آلتی پالتی مارے بیٹھے خاصہ کھا رہے ہیں ؛ بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کیسے ادب سے بیٹھی نیچی نگاہ کیے کھانا کھا رہی ہیں۔ جس کو بادشاہ اپنے ہاتھ سے الش مرحمت فرماتے ہیں، کیا سر و قد کھڑے ہو کر آداب بجا کر لیتا ہے۔“

اس فہرست سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب بہادر شاہ ظفر کے پاس نہ تیمور کا لشکر تھا، نہ بابر کی ہمت تھی، نہ اکبر کی کشادہ دلی تھی، اور نہ اورنگ زیب کی طرح بڑھاپے میں جواں ہمت تھی لیکن دسترخوان کی وسعت اور اس کی غور و پرداخت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا تھا۔ بہت سے نامور حکمران بھی کھانوں کے بہت شوقین تھے لیکن اگر حکومت وسیع ہو اور رعایا خوش حال ہو تو سلطنت ایسے دسترخوان کا بوجھ سہار لیتی ہے لیکن اگر حکومت سمٹ کر ایک قلعہ تک محدود ہو گئی ہو تو پھر رہا سہا مال و متاع بھی ان نخروں کی نذر ہوجاتا ہے۔

یہ پہلو قابل توجہ ہے کہ مصنف نے کتاب کے شروع ہونے کے چند صفحات بعد ہی کھانوں کا ذکر شروع کر دیا ہے۔ پورا ہندوستان غلامی میں جکڑا جا رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسری ریاست ختم ہو رہی تھی لیکن اس قلعہ میں اس بات پر کوئی پریشانی نہیں تھی اور نہ ہی ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ کوئی بھی بینا آنکھ یہ دیکھ سکتی تھی کہ یہ کرتوت کیا رنگ لائیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی بزم نے یہ رنگ اختیار کیا یہ اس بزم کا انجام ثابت ہوا۔ اسی لئے اس کتاب کا نام ”بزم آخر“ رکھا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments