قومی سلامتی پالیسی کا قوم سے تعلق


سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔

” محترم والدین!

آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔

لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے ) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں۔

ان بچوں میں (مستقبل کے ) موسیقار بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔

ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔

لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اس کی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجیے گا۔

اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انھیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں! ”

میں یہ پڑھ کر حیران رہ گئی کہ کس طرح قومیں اپنے مستقبل کی فکر اور تیاری کرتی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں تجربات ہی سے فرصت نہیں ملتی اور سالوں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جس سمت ہم گامزن ہیں وہ تو سمت ہی غلط ہے۔

آج کل حالیہ قومی سلامتی پالیسی کا چرچا ہر جانب ہے۔ سنا ہے پہلی بار قومی سلامتی سے مراد واقعتاً قوم کی سلامتی لیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیے سلامتی کا مطلب فقط زندہ رہنا نہیں ہوتا بلکہ عزت اور حفاظت کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے اور جب بات قوموں کی ہو تو سلامتی کے معانی اور بھی وسیع ہوا کرتے ہیں۔ آپ کے گھر میں قیمتی سے قیمتی اسلحہ ہو اور آپ سارے محلے کے قرض دار ہوں تو لوگوں کی نظر میں آپ کی کیا عزت ہوگی اور پھر ساتھ ہی اگر آپ جاہل بھی ہوں تو یک نہ شد دو شد والا معاملہ۔ آپ کے گھر میں موجود قیمتی اسلحے کے باوجود دشمن کی آپ تک رسائی قطعی مشکل نہیں۔

قومی سلامتی پالیسی سے بطور پاکستانی شہری میری بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ اس میں میرے لئے خوراک کی فراہمی، میری تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ میں اپنے ملک میں مکمل طور پر محفوظ اور آزاد شہری ہوں اور کسی بھی ناگہانی آفت یا حادثے کی صورت میں مجھ پر اپنے ہی ملک کے کسی ادارے یا کسی غیر ملکی آفیشل کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ سانحہ ساہیوال جیسے کسی دردناک سانحے سے دوبارہ کسی شہری کو طاقت کے زور پر ظالم کے لئے معافی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

سیاسی مفادات کے لئے کوئی ماڈل ٹاؤن نہیں کروایا جائے گا اور کوئی ریمنڈ ڈیوس ہمیں نہیں کچلے گا۔ کوئی خاتون اگر اکیلی ڈرائیو کرنا چاہے تو یہ اس کا جرم نہیں سمجھا جائے گا۔ سزا اور جزا کا عمل بلا تفریق ہو گا اور کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ بھئی یہاں تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اگر میں سردی میں کسی سیاحتی مقام پر پھنس جاؤں تو میری حفاظت کے لئے وہ ادارے موجود ہوں گے جو میرے بجٹ سے تنخواہ لے کر اس کام پر مامور ہیں اور مجھے یہ نہیں کہا جائے گا کہ برفباری کے دنوں میں برفباری ٹی وی پر بیٹھ کر دیکھ لیتے، وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی۔

حکومت میں آنے کے بعد کوئی سیاسی جماعت اپنی ناکامی کی ذمہ دار گزشتہ حکومت کو نہیں ٹھہرائے گی بلکہ آگے کا پلان بتائے گی اور میری قومی سلامتی یہ بھی ہے کہ گزشتہ حکومت کی غلط کاریوں کو ان کیمرہ انوسٹی گیشن کے ذریعے نمٹایا جائے تاکہ ہماری سیاست میں بلی چوہے کا کھیل کھیل کر حکومتی مدت پوری کرنے کا تماشا ختم ہو اور ہم آگے بڑھ سکیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پالیسیوں کے بننے اور عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں ان پالیسیوں سے متعلق ایک مایوسی پائی جاتی ہے لیکن میں امید کرتی ہوں کہ اس بار کی قومی سلامتی پالیسی عملی طور پر قوم کی سلامتی کا باعث ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments