دنیا کو ماحولیاتی اہداف پورا کرنے کے لئے 2025 تک 1 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ختم کرنا ہو گا


کیا کاربن ڈائی آکسائیڈ حاملہ پہ زیادہ اثر انگیز ہوگی؟

کیوں کہ ہر سال 5.6 ملین اموات فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ اگر توانائی کی پیداوار یا اس کے استعمال کے طریقے کو تبدیل نہ کیا گیا تو صنعتی فضائی آلودگی کے باعث سن 2040 تک متوقع اوسط عمر سے قبل اموات کی تعداد 5۔ 4 ہو جائے گی ان اموات کی ٪ 90 تعداد ایشیا میں ہوگی۔

اپنی باری کا انتظار کرتی حمیزہ جب ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے اٹھی تو ماسک کو ہلکا سا ہٹا کر لمبا سانس کھینچ کے لیتے ہوئے دھیمے قدموں سے کمرے میں چلی گئی کمرے سے باہر آئی تو ۔

میں نے دریافت کیا کس علاقے سے آئی ہو؟
حمیزہ نے جواب دیا صدر۔
میں نے جو محسوس کیا وہ طلب کیا سانس کیوں اس طرح لے رہی ہو؟
حمیزہ شاید ماسک پہننے کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔
میں نے دوبارہ پوچھا کیسا محسوس ہوتا ہے؟

اس نے ہانپتے ہوتے کہا آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے مگر ماسک پہننا بھی ضروری ہے کیوں کہ دوران حمل زیادہ احتیاط بتائی ہے۔

حمیزہ جیسی زیادہ تر خواتین کو معلوم ہی نہیں کہ ان کو کرونا کا ہی خطرہ نہیں بلکہ خراب ہوتی ہوئی ائر کوالٹی بھی ان کے اور بچے کی صحت کے لئے خطرناک ہے۔

گائنا کالوجسٹ، او۔ ایم۔ آئی اظہرہ احسن نے کاربن کے حوالے سے بتایا کہ ہیٹر سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ سے تو کمرے میں موجود لوگوں کی اموات ہوجاتی ہیں مگر ایسا بہت ہائی کانسنٹریشن پہ ہوتا ہے اور جو ہم عام ہوا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں اس میں کاربن مونو آکسائیڈ کے یہ لیول نہیں ہوتے کہ جن سے فوری جان چلی جائے ظاہر ہے صحت پہ اثرات ہوتے ہیں اور یہ منحصر ہوتا ہے کہ ہم کتنے عرصے تک ان زہریلی گیسوں سے سامنا کر رہے ہیں تو جو اثرات ہوتے ہیں وہ فوراً ظاہر نہیں ہوتے آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار حاملہ اور ہونے والے بچے کے لئے خطرناک ہے یہ بھی منحصر ہے کہ کیا حاملہ ایسے ماحول میں زیادہ سانس لے رہی ہے کہ جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو یعنی ایسے فیکٹری ایریا جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہو رہی ہو۔

اس کی وجہ سے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں سانس لینے میں مشکل، ایستھما جیسے مسائل ہوتے ہیں اور پھر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دوسرے آرگنز خراب ہو جاتے ہیں۔

٪ 25 سے ٪ 30 حمل ضائع تو ویسے ہی ہوتے ہیں یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کون سا اسقاط حمل کس وجہ سے ہوا۔ لیکن ہاں! نظریاتی طور پہ اس کے اثرات ہوسکتے ہیں جیسے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش ہوجانا، اسقاط حمل، بچے کی افزائش خراب ہونا، بچے کا پیٹ میں وزن نہیں بڑھنا جس کے باعث وقت سے پہلے پیدائش کرنی پڑتی ہے، آکسیجن کی کمی سے میٹابولک سسٹم متاثر ہونے سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش اور اس کی وجہ سے پھیپھڑے اور دوسرے آرگنز کا مکمل نہ ہونے جیسے مسائل۔

پریگنینسی ایک ایسا عمل ہے جس میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے تو کووڈ سے فائٹ کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو ماسک پہننا ضروری ہے اگر ماسک نہیں پہنیں گے تو کووڈ ہو سکتا ہے اور ہاں ماسک پہننے سے آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

ماہر سموم (toxicologist) یونیورسٹی آف کراچی شعبہ ماحولیات کی پروفیسر ڈاکٹر ثریا جبین نے بتایا فضائی آلودگی کی دو ہی بڑی وجوہات ہیں فیکٹریاں اور گاڑیاں جن میں فاسل فیول کو انرجی کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔ کراچی کی چونکہ سمندری ہوا ہے جو آلودگی کے پارٹیکلز کو اڑا کے لے جاتی ہے مگر جن علاقوں میں ہوا کم ہے ان میں آلودگی زیادہ ہے جیسے صدر کا علاقہ وہاں لوگوں کو سر درد کے زیادہ مسائل دیکھنے میں آتے ہیں اور جن لوگوں کا ایسے علاقوں میں جانا ہو ان میں پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریاں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں، اور حاملہ خواتین کا معاملہ تو زیادہ نازک ہوجاتا ہے تحقیقات کے مطابق جو حاملہ ایسے ماحول میں سانس لے رہی ہوں جہاں کاربن مونو آکسائیڈ موجود ہوتو ان خواتین میں اسقاط حمل کا خطرہ ہونے کے ساتھ بچے کی پیدائش بہت کمزور ہوتی ہے اور ان بچوں میں پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریاں زیادہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور ان بچوں میں بڑے ہونے کے ساتھ دل کی بیماریاں اور دماغی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہیں۔

ہماری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے جو کہ سب سے زیادہ زہریلا کیمیکل ہے کیوں کہ یہ کینسر کی وجہ ہے۔ ائر کوالٹی بہتر بنانے کے لیے درخت لگانے کے ساتھ متبادل سورس آف انرجی کا استعمال کریں جیسے سولر، پانی، الکوحل، الیکٹرک سے چلنے والی گاڑیاں ماس ٹرانزٹ سسٹم ہونا چاہیے اور سائیکل کا استعمال فضاء دوست ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لئے بھی اچھا ہے۔

ائر کوالٹی ایشیا (AQA) ، کنوینیئر ڈاکٹر شازیہ رافعی کا کہنا ہے۔ پاک صاف ہوا سے متعلق اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی (sustainable development goals ) 2030 کی تعمیل سے پاکستان ابھی دور ہے۔ ملک کے ای پی اے (environmental protection agency) ایجنسی برائے حفاظتی ماحولیات کے ضوابط پر عمل درآمد کے لئے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ ٹرانسپورٹ ایندھن کو یورو 5 euroV) ) تک اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔ ای وی (electric vehicles) پالیسی کی ضرورت ہے۔ صنعت کے اخراج کے ضوابط کو نفاظ کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید توانائی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ماہر ماحولیات environmentalist) ) یونیورسٹی آف کراچی شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ماحولیات کی اگر ہم بات کریں تو سب زیادہ مسئلہ فضائی آلودگی کا ہے اور دوسرے نمبر پہ سولڈ ویسٹ اور ویسٹ واٹر کا ہے۔ ایک سال پہلے کے ڈیٹا کے مطابق کراچی کی فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار 5۔ 0 پی پی ایم سے لے کر 1 پی پی ایم تک آ رہی ہے جو کہ ایک خطرناک لیول ہے اور یہ ایک زہریلی گیس ہے اس کے علاوہ ہوا میں دیگر گیسز اور ڈسٹ پارٹیکلز کا بھی اضافہ ہوا ہے سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کے تحت فضائی آلودگی کا جو گراف ہے وہ بہت اوپر آ رہا ہے کیوں کہ روزانہ سڑکوں پہ گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی طرح فیکٹریوں کے حوالے سے جو سندھ انوائرنمنٹ کوالٹی اسٹینڈرڈ (SEQS) بنائے گئے ہیں ان پہ عمل در آمد ضروری ہے اور کاربن کو گھٹانے کا یہی طریقہ ہے کہ جس جگہ سے یہ پر وڈیوز ہو رہی ہے اس ہی جگہ سے کنٹرول کیا جائے۔

سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کی ٹیم لیاقت آباد 10 نمبر پہ موجود گاڑیوں کی جانچ کر رہی ہے وہاں موجود انوائرنمنٹل انسپیکٹر نعیم شیخ کے مطابق وہ روزانہ کراچی کے مختلف سڑکوں پہ 30 سے 35 گاڑیاں چیک کرتے ہیں جس میں سے ہر 4 سے 5 گاڑیوں کا چالان اسی بنیاد پہ ہوتا ہے کہ وہ ٪ 40 کی لمٹ پہ اسموک چھوڑ رہی ہوتی ہیں۔ روزانہ کی اس ایکٹیویٹی میں ٪ 80 سے ٪ 85 گاڑیاں، بسیں، شہزور، ٹرالرز فیل ہوتے ہیں جن پہ لال اسٹیکر لگا کر چیلان کر دیا جاتا ہے اگر 15 دن کے دورانیہ میں وہ اپنی گاڑی کی کارکردگی کو ، ویہائیکل ایمیشن کے پیمانے کے مطابق بہتر نہیں بناتے تو اسے ٹریفک پولیس بند کر دیتی ہے۔ کراچی کے وہ علاقے جہاں ٹریفک کا فلو زیادہ ہے شیرشاہ، گلبائی، ماڑی پور، صدر میں فضائی آلودگی کراچی کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔

www.researchgate.net کے محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں۔ 53 ملین سے زیادہ گاڑیاں روزانہ سڑکوں پر ہوتی ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن ( ڈبلیو ایچ او ) کے مطابق فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہر سال 5۔ 6 ملین اموات ہوتی ہیں۔ گھریلو (اندرونی آلودگی) ، ایندھن (چولھے ) ، سگریٹ نوشی سے ہر سال 8۔ 3 ملین اموات ہوتی ہیں۔ دنیا کی ٪ 91 آبادی ان جگہوں پہ آباد ہے جہاں ہوا کا معیار ( ڈبلیو ایچ او ) کے رہنما اصول کی حد سے تجاوز کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments