پاک افغان تعلقات کا مستقبل، ایک جائزہ


دو اسلامی اور پڑوسی ممالک ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات تاریخ کے کسی بھی موڑ پر مثالی نہیں رہے ہیں، اگرچہ دونوں ممالک تہذیب ثقافت زبان رسم و رواج اور مذہب کے اتنے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں کہ حکمران چاہتے ہوئے بھی دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ خاص کر چالیس سال قبل افغان انقلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین کی پاکستان آمد اور ملک کے کونے کونے میں رہائش اختیار کرنے سے دونوں ممالک کے عوام یکجا ہو کر رہ گئے۔

نہ صرف یہ کہ اب ان افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں جوان ہو رہی ہے بلکہ ہزاروں افغانی، پاکستانی مرد و خواتین کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے سے یہ مکمل پاکستانی بن چکے ہیں خواہ ان کی قانونی حیثیت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ ان کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے ان کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تہذیبی اور ثقافتی رشتہ اس وقت اور مضبوط تھا جب دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ سرحدی تجارت تمام قانونی پیچیدگیوں سے مستثنی تھا۔

پاکستان میں پشاور، کوئٹہ، مہمند خیبر پاراچنار میرانشاہ اور چمن افغان عوام کے سب سے بڑے کاروباری مراکز تھے۔ جبکہ افغانستان میں کابل جلال آباد کونڑ اور قندہار پاکستانیوں سے بھرے رہتے۔ اس آزادانہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں سے دونوں ممالک کو فائدہ کم تھا یا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے لاکھوں لوگ براہ راست اور کروڑوں لوگ بالواسطہ مستفید ہو رہے تھے۔ جس میں تاجروں کے علاوہ، دیہاڑی دار مزدور، ڈرائیور، کنڈیکٹر، گاڑی مالکان، ہوٹل مالکان منشی اور ہزاروں چھوٹے بڑے دکاندار شامل تھے۔ افغانستان کئی دہائیوں تک عالمی مصنوعات کی بڑی منڈی اور ٹیکس فری زون رہا ہے یہاں سے یہ ٹیکس فری سستی مصنوعات کوئٹہ اور پشاور کے راستے ملک کے باقی حصوں تک بآسانی پہنچائی جاتی تھی۔

نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو فوجوں کی موجودگی نے اس کاروبار اور آزادانہ آمد و رفت کو نقصان پہنچایا، لیکن اس کے باوجود سامان کی ترسیل کا سلسلہ ختم نہیں تھا۔ بد قسمتی سے سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو آرمی پبلک سکول کا سانحہ رونما ہوا، دہشت گردی کے اس بڑے واقعے میں کم وبیش ڈیڑھ سو افراد لقمہ اجل بنے۔ سرحد پار سے منصوبہ بندی کرنے والے اس واقعہ کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لئے اس پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔

اس باڑ کی تنصیب سے اگر ایک طرف دہشت گردوں کی آمد و رفت محدود ہو گئی تو دوسری طرف اس نے مقامی باشندوں اور سرحدی کاروبار سے وابستہ افراد کا بھٹہ بھٹا دیا۔ باڑا مارکیٹ کارخانو مارکیٹ سمیت قبائلی اضلاع میں واقع درجن بھر بازار اپنی آ ٓخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان، ڈرائیور حضرات، ہوٹل مالکان، دیہاڑی دار مزدور اور سرحدی دکاندار خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ مگر موجودہ مشکل دور میں کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں۔

پندرہ اگست دو ہزار اکیس وہ دن تھا جب افغان طالبان نے تقریباً بیس سال بعد افغان دارالحکومت کابل کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ امریکی انخلاء اور طالبان کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہو مگر دنیا طالبان کی حمایت میں پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کے باوجود کہ امریکہ کی پیروی میں دنیا نے طالبان پر کئی ایک معاشی اور کاروباری پابندیاں لگائی ہوئی ہے۔ مگر پاکستان نے دنیا کو افغان عوام کی امداد پر آمادہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

اس کے باوجود کہ پاکستان بذات خود کئی ایک معاشی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان دنیا کے سامنے اپنے مسائل کی بجائے افغان عوام کے مسائل اجاگر کرنے میں مصروف ہے۔ باوجود اس کے کہ ابھی دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ تجارت اور کاروبار کے حوالے سے عالمی پابندیاں بھی عائد ہے۔ پاکستان نے نہ صرف افغان عوام کے لئے اپنے دروازے کھولے ہیں بلکہ افغان وزیر داخلہ سمیت متعدد اعلی عہدیداروں کے پاکستان دورے کو بھی خوش آمدید کہا ہے۔

سرکاری سطح پر جاری تعاون کے علاوہ سی آر ایس ایس اور پختونخوا چیمبر آف کامرس جیسے غیر سرکاری تنظیمیں بھی دونوں ممالک کے درمیان عوامی اور کاروباری سطح پر آمد و رفت کو بڑھانے میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ مگر تمام تر سرکاری و غیر سرکاری کوششوں کے باوجود سرحد پر آمد و رفت اور کاروبار کو آسان نہیں بنایا جا سکا۔ افغان عوام اب بھی پاکستانی سفارتخانے پر ویزہ دینے میں تاخیری حربوں کا الزام لگاتی ہے جبکہ طورخم غلام خان اور چمن سرحد پر افغانستان کی طرف سے گاڑیوں کی پاکستان داخلے کو مزید آسان بنانے اور ان کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

مگر پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان نے حد درجہ رعایتیں فراہم کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر سے دسمبر دو ہزار اکیس تک دوطرفہ تجارت میں افغانستان کا پلڑا بھاری رہا۔ کیونکہ کثیر تعداد میں تازہ پھل خشک میوہ جات، کوئلہ اور سوپ سٹون سے بھری گاڑیاں دن رات پاکستان میں داخل ہو رہی تھی۔ مگر دوسری جانب پاکستان کی طرف سے برآمدات میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ تازہ پھل کا موسم ختم ہونے کے بعد اب دوطرفہ تجارت میں توازن پیدا ہو رہا ہے۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ میں ہونے اور افغانستان پر عالمی پابندیوں کو مد نظر رکھ کر سٹیٹ بنک آف پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت کو لازماً بذریعہ بنک اور ڈالر میں ادائیگی کرنے کی شرط عائد کی ہے تاہم انسانی ہمدردی اور تاجروں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے پاکستان نے خورد و نوش سمیت تعمیراتی سامان کی سولہ اشیاء کو مقامی کرنسی میں تجارت کی اجازت دے دی ہے جس سے تاجروں نے قدر سکھ کا سانس لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاک افغان تجارت کا مستقبل طالبان کی پالیسیوں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل پر منحصر ہے۔

اگر طالبان، خواتین سمیت انسانی حقوق کے احترام کی پاسداری میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے بچا سکتے ہیں تو مستقبل قریب میں عالمی برادری کی جانب سے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ کاروبار اور تعلقات کو وسعت دینے کا مرحلہ آ سکتا ہے جو پاکستان کے ساتھ مزید تجارت کے فروغ کا سبب بنے گا، اگر خدانخواستہ طالبان عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہے۔ تو پاکستان تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود دو طرفہ تجارت کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اور یہی نکتہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments