توشہ خانہ کیس میں حکومت کا نیا پینترا


وزیراعظم عمران خان کے لئے غیرملکی تحائف کیس (توشہ خانہ کیس) اس حد تک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے کہ میرے مستند ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کو ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ پروگرام میں عوام کی لائیو ٹیلیفون کالیں صرف اس لیے نہیں لی گئیں بلکہ اپنی جماعت کے قابل اعتماد کارکنوں کو لکھے ہوئے سوالات بھجوا کر من پسند لوگوں سے ٹیلیفون کالیں کروائی گئیں جن کے تحریری جوابات وزیراعظم عمران خان کے پاس پہلے سے موجود تھے، خدا نخواستہ کوئی توشہ خانے کا سوال نہ پوچھ لے، یعنی اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو پھر آپ غیرملکی سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کی تفصیل خفیہ کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اوپن پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کرتے بلکہ اپنے من پسند ’مخصوص‘ صحافیوں کو وزیراعظم ہاؤس میں بلا کر انہیں اپنی معاشی کامیابیوں کا لیکچر پلاتے ہیں۔ اتنے پختہ انتظامات کو دیکھ کر عوام کے ذہنوں میں یہ سوال تو ابھرتا ہے کہ وزیراعظم صاحب! اگر آپ کے ہاتھ واقعی صاف ہیں تو غیرملکی سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کی تفصیل بتا کیوں نہیں دیتے؟

تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) محمد احد کا سٹیبلشمنٹ ڈویژن میں تبادلہ کر دیا ہے اور ان کی جگہ عامر انصاری کو تعینات کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ محمد احد، انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) کو انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ نے 3 فروری 2022 کو پاکستان انفارمیشن کمیشن میں طلب کر رکھا ہے کہ آ کے بتائیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیلات کی فراہمی کے حوالے سے سٹے آرڈر جاری کر رکھا ہے یا نہیں!

پاکستان انفارمیشن کمیشن سے 20 جنوری 2022 کو جاری ہونے والے نوٹس میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) فائل ریکارڈ اور کورٹ آرڈر کی کاپی 3 فروری کو پیش کریں اور وضاحت کریں کہ وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیلات کیوں فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ صاف عیاں ہے کہ اس کا پس منظر میری طرف سے 24 اپریل 2021 کو پاکستان انفارمیشن کمیشن میں دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست ہے، جو محمد احد، انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) کے خلاف ہے۔ خیال رہے کہ توہین عدالت کی درخواست کسی عہدے کے خلاف نہیں بلکہ فرد کے خلاف ہوتی ہے۔ اگر محمد احد، انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) 3 فروری کو پاکستان انفارمیشن کمیشن کے روبرو ہائیکورٹ کے سٹے آرڈر کے بغیر پیش ہوتے (جو کبھی جاری ہی نہیں ہوا، بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پہلے ہی ریمارکس دے چکے ہیں کہ عدالت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں، پاکستان انفارمیشن کمیشن اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے قانونی ایکشن لینے کے لئے با اختیار ہے)، تو محمد احد، انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) کے سامنے دو ہی راستے ہوتے، یا تو وہ وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی (مانگی گئی) تفصیل کی فراہمی کے لئے مہلت طلب کرتے یا پھر توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے۔

وفاقی حکومت نے اپنے تئیں یہ ایک ترپ کا پتا کھیلا ہے کہ متعلقہ افسر کو ہی تبدیل کر دیا گیا، جس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی تھی۔ حالانکہ مجھے پہلے ہی معلوم چکا تھا کہ حکومت ایسا کوئی قدم اٹھانے جا رہی ہے، کیونکہ میرے ذرائع کا بتانا ہے کہ 20 جنوری کو پاکستان انفارمیشن کمیشن سے ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) کے نام نوٹس جاری ہونے سے دو روز قبل ایک سماجی تقریب میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن سردار احمد نواز سکھیرا جو کہ میرے دوست بھی ہیں اور ایک اچھے انسان ہیں، نے اس مقدمے سے منسلک ایک اہم شخصیت کو مبینہ طور پر باتوں باتوں میں دھمکی دی کہ ’وفاقی حکومت سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہوتا‘ ۔

نہیں معلوم کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کیوں زور بازو آزمانے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ حکومتی عہدیداروں کو ہرگز زیب نہیں دیتا کہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کو طاقت آزمانے کا چیلنج دیں، کیونکہ بیوروکریٹ وزیراعظم کے ماتحت نہیں بلکہ قانون کے ماتحت ہوتا ہے اور بقول وزیراعظم عمران خان، بیوروکریٹس کو وہی کرنا چاہیے جو قانون کہتا ہے، جبکہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن سردار احمد نواز سکھیرا سے بھی یہی گزارش ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا وتیرہ اپنانے کی بجائے آپ وہی کریں جو قانون کہتا ہے۔ معلومات تک رسائی کا قانون یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کی طرف سے مانگی گئی معلومات دس روز کے اندر فراہم کی جائیں۔ اس کے برعکس مجھے وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیلات کی آر ٹی آئی ریکویسٹ کابینہ ڈویژن کو بھجوائے پندرہ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، حالانکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن اس حوالے سے میری اپیل پر میرے حق میں فیصلہ دے چکا ہے، گو وفاق نے کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے تاہم وفاقی و صوبائی حکومت (خیبرپختونخوا) کے تمام تر فاشسٹ ہتھکنڈوں کے باوجود ہائیکورٹ کے معزز جج کو دباؤ میں لانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

مندرجہ بالا حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے واضح فیصلے کے باوجود وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیل فراہم نہ کرنے کہ اصل ذمہ دار محمد احد، انچارج توشہ خانہ و ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) نہیں بلکہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن سردار احمد نواز سکھیرا ہی ہیں جو قانونی ایکشن رکوانے کے لئے ایک خود مختار ریاستی ادارے کے ایک اہم عہدیدار کو دھمکی دینے جیسے ناپسندیدہ کام سے بھی گریز پا نہیں۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے دھمکی آمیز رویے پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے لئے دوسری اہم اطلاع یہ ہے کہ توہین عدالت کے قانون کے مطابق کسی افسر کا تبادلہ کردینے سے توہین عدالت ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ کہیں بھی چلا جائے توہین عدالت کی کارروائی چلتی رہے گی، بلکہ اس کی جگہ آنے والے کے لئے بھی یہ ایک چتاونی ہے کہ قانون کی راہ پہ چلنے کی بجائے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی صورت میں اسے بھی توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments