کپتان کا علم البیان


تاریخ میں بہت کم راہ نما ایسے ہیں جنھیں بیک وقت متعدد علوم پر دسترس تھی۔ تہنیت کہ پون صدی نرگس دھاڑیں مار کر روئی اور کچھ کھا، پی کر سوئی تو اک وحید العصر دیدہ ور کا بھاری ”سایہ“ پڑ ہی گیا۔ جو علم سیاست، علم معیشت، علم تاریخ، علم دین و فقہ، علم جغرافیہ، علم روحانیت، علم ہندسہ و شماریات، علم کلام اور خاص کر علم البیان کی تمام حدود ایک ہی جست میں عبور کر چکا ہے۔ ان کے خطاب و بیان کا تو اک عالم معترف ہے جن کے بل بوتے پر بد عنوانوں کو ناکوں چنے چبوائے۔

ظہور انصاف سے قبل ملک کے سیاسی، معاشی، اخلاقی و انتظامی حالات نا گفتہ بہ تھے۔ انھوں نے اپنے بیانیوں کے طفیل پرانی طواءف الملوکی کا قلع قمع کر کے اپنے والی راءج کی۔ پہلی بار کرپشن کے رزائل اجاگر کر کے باور کرایا کہ حکمران چور ہو تو مہنگائی بہت بڑھ جاتی ہے۔ قرض اور بھیک مانگنے سے خود کشی کو افضل قرار دیا۔ بل زیادہ آنے پر اسے جلانے کے جہاد کا شعور بخشا۔ ڈالر کی اونچی اڑان کو بیرون ملک پاکستانیوں کے سعید گردانا اور ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کو دھتکار کر کلمۂ حق بلند کیا۔

اک بیان میں فرمایا کہ مہنگائی میں ریکارڈ کمی ہو چکی ہے اور ترقی میں اندھا دھند اضافہ جاری ہے جو عقل کے اندھوں کو دکھائی نہیں دے سکتا۔ یہ مژدہ بھی سنا دیا کہ کرپشن تو ان کے ابتدائی نوے روز میں ہی ختم کردی گئی تھی جس کے گواہ ان کے تمام عقل بند ساتھی ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی کب کا وفا ہو چکا ہے۔ علم بیان کی معراج دیکھیں کہ اگر انھیں نکالا گیا تو وہ انتہائی خطر ناک ہو جائیں گے۔ گویا حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ، ان کی خطر ناکی قوم کے لیے ہر صورت مسلم ہے۔

ان کے ہاں اشیا کی قیمتیں بڑھنا ہی ترقی کی علامت ہے۔ بجا ہے کہ آپ ”نگہ کلنگ، سخن دل خراش جاں بے سوز کے پیکر ہیں تاہم وہ شامت اعمال ما بہ صورت عمراں گرفت والی لغویات کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ قائد اعظم کے چودہ نکات کے مقابل چودہ سو نکات پیش کیے ہیں اور تاریخی قومی غارت گری میں اپنے حصے کی کئی شمعیں روشن کر رہے ہیں۔ ان کارناموں پر اس قائد کے حضور راقم ایک ٹوٹا پھوٹا قصیدہ پیش کرنا قومی فریضہ خیال کرتا ہے، ملاحظہ ہو جناب راحت فتح اور خلیل قمر سے بغیر کسی معذرت کے ساتھ،

ضروری تھا
لوگ کتنے تیری تبدیلی سے بدکے ہوں گے تونے
مہنگائی کا جب بیڑا اٹھایا ہو گا
تونے جب ماضی کی تقریریں نکالی ہوں گی وہ
زمانہ بھی تجھے یاد تو آیا ہو گا
تیرے جوش خطابت کا اترنا بھی
ضروری تھا
حکومت بھی ضروری تھی بہکنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں صدا اک پیج پر رہتے
مگر پھر پیج سے یک دم پھسلنا بھی ضروری تھا
بتاؤ یاد کیسے حکومت میں تو آیا تھا
کرپشن اور چوری کا بڑا اودھم مچایا تھا
وظائف گڈ گورننس کے لئے تسبیح میں پڑھتے ہو مگر ٹوٹے ہوئے
وعدے وفا کرنے سے ڈرتے ہو
مگر اب یاد آتا ہے کہ باتیں تھیں محض باتیں کہیں
یو ٹرن لے لے کر مکرنا بھی ضروری تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments