حسن کو تشبیہ کی حاجت نہیں


حسن ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی حسن انسان کو روز اول سے اپنی جانب مائل کرتا چلا آ رہا ہے۔ حسن کی مکمل تعریف کرنا اگرچہ ایک مشکل کام ہے مگر اکثریت کے نزدیک توازن اور کاملیت کا نام حسن ہے۔ جسم میں توازن نہ ہو تو بے شمار اعتراضات اٹھتے ہیں، حقوق و فرائض میں توازن نہ ہو تو ادھورے پن کا ٹھپا لگ جاتا ہے اور اعمال غیر متوازن ہوں تو نیک اور بد کے فیصلے سنائے جانے لگتے ہیں۔ یعنی یہ توازن ہی حسن کو تخلیق کرتا ہے، شعر بے وزن ہوں تو دل نہیں لبھا پاتے، معمار کی کاری گری اسی توازن کی محتاج ہے، مصور کی مصوری، مصنف کی قلم آزمائی، رقاصہ کا رقص اور مغنیہ کا نغمہ اگر مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اتریں تو غیر متوازن ہونے کی بنا پر حسن سے عاری کہلانے لگتے ہیں۔

یہاں سے سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حسن متوازن ہونے کا نام ہے تو توازن کا معیار کس پیمانے پر مقرر کیا جائے گا؟ بات اگر اتنی ہی سادہ ہوتی تو پھر ہر متوازن شے حسین دکھائی دیتی اور ہر انسان اس پر متفق بھی ہوتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ حسن کی جو توجیہہ ایک شخص پیش کرتا ہے اور کسی شے کو جس بنیاد پر حسین کہتا ہے، وہی شے دوسرے شخص کے لیے غیر دلچسپی کی حامل ہوتی ہے اور وہ اسے حسین نہیں محسوس کرتا۔ ہر انسان حسن دیکھ بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے مگر ہر ایک کا معیار حسن مختلف ہے اور اس بنا پر حسن کی تعریف کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہے۔

حسن براہ راست نگاہ سے تعلق رکھتا ہے لہذا مختلف زاویہ نظر رکھنے والے حسن کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ جنگلی لوگوں کا معیار حسن تہذیب یافتہ معاشرے کے معیار حسن سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح حسن کا معیار بعض کے نزدیک گورا رنگ اور بے داغ جسم ہے، لیکن دوسری جانب کچھ لوگ موٹے ہونٹ اور زخم خوردہ جنگ جو جسموں کو حسین کہتے ہیں۔ یونانی جسمانی وجاہت، شباب اور متوازن جسم کو خوبصورت کہتے تھے جبکہ رومی عظمت اور طاقت کو حسن کا معیار سمجھتے تھے۔ سو انسان نے ہر دور میں حسن کا معیار الگ الگ مقرر کیا ہے اور کسی ایک پیمانے یا معیار پر متفق نہیں ہو سکے۔ ایک شاعر نے کہا تھا،

”فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

ایک مشہور فلسفی کہتا ہے، ”کوئی چیز جو ہماری فطرت کے کسی اساسی احتیاج کو پورا کرتی ہے اس میں جمالیاتی حظ دینے کے امکانات موجود ہیں۔ ایک غریب اور بھوکے شخص کے لیے کھانوں سے بھرا خوان بالکل ویسا ہی حسین ہے جیسا کہ ایک خوش خوراک طالب علم کے لیے عورت“ ۔ حسن کا باقاعدہ ایک معیار مقرر کرنا ہر زمانے میں ناممکن رہا ہے، ہاں البتہ انسانوں نے کچھ پیمانے بنا کر حسن کو اس پر تولنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ حسن دراصل آرزو سے وابستہ ہے۔ آرزو جتنی شدید ہو گی، حسن بھی اتنا بھرپور ہو گا اور جیسے ہی آرزو کی شدت کم ہو گی، حسن اپنی دلکشی کھو دے گا، یہی انسانی نفسیات ہے اور شاید معیار بھی۔ غالباً رومی نے کہا تھا،

”آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است ”

حسن حواس سے تعلق رکھتا ہے۔ صرف نظر نہیں، بلکہ سماعت اور بعض اوقات لمس اور قوت شامہ بھی کسی شے کے حسین ہونے یا ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ مظاہر فطرت متوازن ہونے کی بنا ہر کائنات کو حسین بناتے ہیں، لیکن ڈوبتا سورج، روز ہر ایک کے لیے دلکش نہیں ہوتا اور نہ ہی باد نسیم ہر ایک کو لطف اندوز کر کے اس پر کائناتی حسن آشکار کرتی ہے۔ شمس و قمر اور نجوم ہر ایک توازن کے ساتھ اپنی موجودگی کے باعث حسن کا اظہار ہیں۔ لہذا اکثریت اسی پر قائل ہے کہ متوازن شے حسین ہے۔

سمندر کی لہریں، چاند کی چاندنی، پہاڑوں کی بلندی، صحرا کی خاموشی اور بارش کی بوندیں ہر آنکھ کو حسین نہیں دکھائی دیتیں۔ میں سمجھتا ہوں حسن کا تعلق روح سے بھی ہے۔ ہر وہ شے جسے ہماری روح پہچانتی ہے وہ ہمیں اپنی جانب مائل کرنے لگتی ہے اور حسین دکھتی ہے۔ خصوصاً مظاہر فطرت ہمیشہ سے انسان کو لبھاتے چلے آئے ہیں۔ یہ اس شے اور انسانی روح کے مابین ایک روحانی تعلق ہے اور اسی لیے ایسے نظارے ہمیشہ حسین دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا میں حسن کی مکمل تصویر انسانی چہرہ ہے چاہے وہ نسوانی ہو یا مردانہ۔ مگر نسوانی چہرہ حسن کا معیار ہے۔

ولولا العلم بالافلاک ظنوا
بان الشمس تشرق من جبینک۔

’‏اگر علم فلکیات نہ ہوتا تو لوگ سمجھتے رہتے کہ سورج تمہارے چہرے کی وجہ سے چمک رہا ہے ”بقول ایک فلسفی کے مرد کی آرزو میں شدت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بے پناہ حسن تخلیق ہوتا ہے۔ اور چونکہ عورت اس بات سے واقف ہے کہ وہ مرد سے زیادہ حسین ہے، لہذا وہ محبوب بننے کی چاہ میں ان صفات کو اجاگر کرتی ہے جو آرزو کو تند و تیز بناتی ہیں۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر صفات مختلف ہونے پر اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔

سو کچھ لوگ چہروں کو معیار حسن بناتے ہیں اور بعض جسمانی خد و خال کو حسن کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ نظر نہیں، سماعت کے بل بوتے پر آواز کو حسن کا معیار مقرر کر لیتے ہیں اور فقط ایک آواز ہی ان کی دھڑکنوں کو بے قابو کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ حسن مختلف پہلوؤں سے اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ موجود ہے، لیکن فی زمانہ انسان نے حسن کے پیشتر معیارات کو قبول کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب ان کے لیے چہروں سے زیادہ جسم حسین بننے لگے ہیں۔

لوگ مختلف صفات کو اجاگر کرنے سے وجود میں آنے والی آرزو کی شدت کو نظر انداز کر کے فقط حیوانی جبلتوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یوں زندگی جو ملٹن بھی ہے وہ فقط نیوٹن بن جاتی ہے (شاید وہ بھی نہیں ) ۔ نتیجتاً وہ حسن جو ایک ننھے سے پودے کی کلی میں ہے، سر شام لوٹنے والے پرندوں کی چہچہاہٹ میں ہے، رات کی رانی کی خوشبو میں ہے اور زندگی کی دوڑ میں بھاگنے والوں کا کچھ پا لینے کی خوشی میں ہے، وہ سب کہیں کھو چکا ہے۔

اب حسن فقط وہ ہے جو کسی حیوانی جبلت کی تکمیل کا باعث بن سکے۔ مجھے بتاؤ کہ حسن کو محدود کر دینا ایک المیہ نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ مجھے دستوئیفسکی کی بات یاد آ رہی ہے،“ حسن ہیبت ناک ہے، بھیانک ہے! ہیبت ناک اس لئے کیونکہ اس کی تعریف متعین نہیں کی جا سکتی، یہ اتنا قابل تعریف ہے اور پراسرار ہے جتنی کے خدا کی مخلوق میں باقی تمام چیزیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ضدین کا ملاپ ہوتا ہے، جہاں تضادات کی حکمرانی چلتی ہے ”۔

تمہارا اپنا۔
عبداللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments