ہاجرہ مسرور کا ملمع، ہمارے معاشرے کا عکاس


دسویں کی اردو کتاب کے صفحہ نمبر ساٹھ پر سبق ”ملمع“ میں ہاجرہ مسرور نے ہمارے معاشرے کے تصنع، اندھی تقلید اور مکروہ چہرے کی بے مثال عکاسی کی ہے۔

لکھتی ہیں ؛

”امی جان نے جانے کب سے تین روپے جوڑ رکھے تھے سو نکال کر دیے کہ تم عقیل کو ساتھ لے کر چلی جاؤ عقیل بچہ ہی سہی لیکن ہے تو لڑ کا۔ بس یہی ان کی بات تو مجھے زہر معلوم ہوتی ہے۔ جانے وہ لڑکیوں کو کیا سمجھتی ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ میں کیا کوئی لڈو پیڑا ہوں، جو کوئی کھالے گا اور عقیل کو دیکھ کر ڈر کے مارے اگل دے گا۔ آخر سلمی اور رضیہ بھی تو لڑکیاں ہیں۔ کیسے مزے میں تنہا سفر کیا کرتی ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ بھئی! وہ بڑے آدمی کی لڑکیاں ہیں۔ میں نے جواب دیا: واہ! تب تو انھیں بلامبالغہ ایک درجن نوکروں کے جھرمٹ میں سفر کرنا چاہیے چونکہ ہم غریب ہیں، اس لیے ایک ہی کا سفر خرچ نکلنا مشکل ہے۔ کجا ایک ننھے محافظ کے ساتھ جس کی حفاظت خود مجھ پر فرض ہو گی۔ غرض گھنٹوں ان سے بحث کی، تب کہیں جا کر عقیل صاحب کے پہرے سے نجات ملی ”۔

ہمارے ہاں لڑکی چاہے جتنی بھی پڑھ لکھ جائے اس کی حفاظت کا تصور گھر کے مرد یعنی باپ، بھائی یا پھر شوہر سے جڑا ہوا ہے جس کا اطلاق چھوٹے موٹے معاملات سے لے کر مذہبی فرائض کی ادائیگی تک پھیلا ہوا ہے اور عام طور پر اس میں عورت کی عمر کی بھی قید نہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھ لیں کہ ابھی کچھ عرصے تک کچھ عمر رسیدہ خواتین حج یا عمرہ پر اس لئے نہیں جا پاتی تھیں کہ ان کے لئے محرم کی شرط پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب کچھ عرصہ پہلے اس شرط میں نرمی کر دی گئی ہے۔

گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جانے پر کردار کی تلملاہٹ کے ذریعے مصنفہ ہمیں معاشرے کے دوہرے معیاروں سے متعارف کراتی ہیں جو غریب کی بیٹی کے لئے الگ اور امیر کی بیٹی کے لئے الگ ہیں۔ یعنی یہ رسم و رواج کا چابک بھی صرف متوسط اور غریب کے لئے ہے۔ اوپر والی کلاس تو جو کرے وہ ان کی ادا ٹھہرتا ہے۔ ان کا غلط بھی غلط نہیں ہوتا۔ طبقاتی ناہمواری کی جس طرح عکاسی ہاجرہ مسرور کے ہاں ملتی ہے اس سے عمدہ شاید ہی کہیں ملتی ہو۔

ہمارے ہاں خواتین کا تحفظ ہمیشہ ایک مسئلہ ہی رہا ہے جس کو سلجھانے کے لئے عام طور پر خواتین ہی پر مزید پابندیاں لگا کر اس کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس کو زیادہ تر مذہب کے نقطہ نظر سے دیکھا اور جوڑ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں مذہبی شدت پسندی اس قدر ہے کہ اس موضوع پر قلم یا آواز اٹھانا جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اگر اس ملمع کاری کو ہم موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو حالیہ قومی سلامتی پالیسی میں خواتین کے تحفظ کی بات کی گئی ہے اور ماضی کی طرح اس کو پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں پہلے سے موجود قوانین کی عملداری کا فقدان ہے کیونکہ قوانین بنانے والے اور اس پر عملدرآمد کرانے والے ماضی کی فرسودہ روایات، خاندانی رسم و رواج اور اندھی معاشرتی تقلید میں ابھی تک جکڑے ہوئے ہیں اور بہت سارے لوگ غلط کو غلط سمجھنے کے باوجود اس سے مفر حاصل نہیں کر پائے۔ اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے۔ اس کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد غبار خاطر میں لکھتے ہیں ؛

”انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے تقلیدی عقائد ہیں۔ اسے کوئی طاقت اس طرح جکڑ بند نہیں کر سکتی، جس طرح تقلیدی عقائد کی زنجیریں کر دیا کرتی ہیں۔ وہ ان زنجیروں کو توڑ نہیں سکتا، اس لیے کہ توڑنا چاہتا ہی نہیں۔ وہ انہیں زیور کی طرح محبوب رکھتا ہے۔ ہر عقیدہ ہر عمل، ہر نقط نگاہ، جو اسے خاندانی روایات اور ابتدائی تعلیم و صحبت کے ہاتھوں مل گیا ہے، اس کے لیے ایک مقدس ورثہ ہے۔ وہ اس ورثہ کی حفاظت کرے گا مگر اسے چھونے کی جرات نہیں کرے گا۔ بسا اوقات موروثی عقائد کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اور گرد و پیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا تعلیم دماغ پر ایک نیا رنگ چڑھا دے گی لیکن اس کی بناوٹ کے اندر نہیں اترے گی۔ بناوٹ کے اندر ہمیشہ نسل، خاندان اور صدیوں کی متوارث روایات ہی کا ہاتھ کام کرتا رہے گا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments