طالبان، سیز فائر اور بلوچ علیحدگی پسند


تحریک طالبان پاکستان ہر سیز فائر کی مدت پوری ہونے کے بعد پاکستانی عوام اور ریاست پر ایک لٹکتی تلوار بن جاتے ہیں، اس سے پہلے انہوں نے پاکستان کی ریاست کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا، بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ان کے روابط کے شواہد بھی نظر آ رہے ہیں، پہلی بار طالبان سٹائل میں لاہور انار کلی والا واقعہ بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے نئے گٹھ جوڑ بلوچ نیشنل آرمی نے قبول کر لیا ہے۔

پاکستان کے چہیتے افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے صاف انکار کر دیا ہے اور افغان پاکستان بارڈر کو تسلیم نہ کرتے ہوئے پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ گالم گلوچ کے متعدد واقعات رونما ہو رہے ہیں، ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کا ایک نمائندہ پاک فوج کے جوانوں کو شدید گالیاں بک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہمارے علاقے میں رفع حاجت کے لئے بھی آئے تو میں تم لوگوں کے ساتھ ایسے لڑوں گا جیسے یہودی دشمنوں کے ساتھ لڑا جاتا ہے، ان جھڑپوں کی آئی ایس پی آر تصدیق بھی کر چکی ہے اور معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی۔

متعدد مقامات پر انہوں نے پاکستان کی طرف سے تعمیر کی گئی باڑ کو بھی اکھاڑ پھینکا ہے، ان کے مطابق یہ باڑ افغان علاقے میں لگائی جا رہی ہے، ڈیورنڈ لائن کو وہ بارڈر تسلیم نہیں کرتے بلکہ ایک حل طلب مسئلہ گردانتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ریاست پاکستان کا بیانیہ (توقع کے عین مطابق) طالبان کے بارے میں بری طرح فلاپ ہوتا نظر آ رہا ہے، صورتحال کی سنگینی کو فی الفور سمجھنے اور پالیسی پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے، موجودہ حالات میں پاکستان کو مشرقی بارڈر سے زیادہ مغربی بارڈر پر کہیں زیادہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے، کیوں کہ ہمیشہ کی طرح طالبان کو جہاں اور جیسے بھی موقع ملے وہ سول اور ملٹری کی تخصیص کیے بغیر حملہ آور ہو جاتے ہیں، جہاں سے بھی مدد ملے خواہ وہ پیسے ہوں یا اسلحہ بسم اللہ کر کے قبول کر لیتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف نے بار بار بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کا عندیہ دیا ہے، اور سیاچن سے فوجیں واپس بلانے کا مشورہ بھی (جسے ہندوستان نے ایسی شرائط کے ساتھ منسوب کر دیا ہے کہ ”آپ انکار ہی سمجھیں“ ) ،

بھارت کے ساتھ تو اکا دکا جھڑپیں ہوتی ہیں وہ بھی آمنے سامنے، جبکہ طالبان گوریلا وارئیر اور بلوچ چھپ اور گھس کر حملہ آور ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ طالبان کا آج بھی ہمدرد بنتا ہے (صرف اور صرف مذہبی بنیادوں پر ) انہیں بھی اپنے اصلی دشمن پہچاننے کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان نے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات (جن میں آرمی پبلک سکول والا واقعہ بھی شامل ہے ) کو فاتحانہ انداز میں نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس پر فخر کا بھی اظہار کر چکے ہیں۔

بدقسمتی سے سیاستدانوں اور فوج میں بھی طالبان کے بہت سے ہمدرد ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، جو طالبان کو اپنی ریزرو فورس بتاتے رہے، (ہمارے ایسے ہی اعمال کے نتیجے میں پاکستان ”فیٹ ایف“ کی رنگ برنگی لسٹوں میں گرتا پڑ رہا ہے ) ان کو ختم کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کا لالی پاپ عوام کو دیتے رہے، اس دوران انہوں نے بے شمار معصوم پاکستانیوں کی جان بھی لی اور پاکستان کے دشمنوں سے مدد بھی۔ ہمارے مسائل کے پہاڑ کا حل اس ” نابالغ سوچ“ سے چھٹکارے میں چھپا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments