آزاد کشمیر کے14سالہ عبدالصمد کا مقدمہ


آزاد کشمیر کے ضلع راولاکوٹ کی تحصیل عباس پور کے گاؤں تیتری نوٹ میں 25 نومبر کو ایک 14 سال لڑکا عبدالصمد عرف عصمد اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کر گیا اور انڈین فوجیوں نے مورچے سے باہر آ کر اسے گرفتار کر لیا۔ نویں کلاس کا طالب علم عبدالصمد اپنی والدہ کی وفات کے بعد ، تین ماہ کی عمر سے اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے گھر کے صحن کے ساتھ ہی ایک پہاڑی نالہ واقع ہے جو کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائن ( لائن آف کنٹرول) کی حد ہے۔ اطلاعات کے مطابق انڈین فوج نے ابتدائی تحقیقات کے بعد عبدالصمد کو پونچھ پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ دو ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک آزاد کشمیر کے اس 14 سال لڑکے کو واپس آزاد کشمیر کے حکام کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔

عبدالصمد کے نانا محمد اسلم نے ’بی بی سی‘ کے نمائندے کو بتایا کہ مقامی سطح پر تعینات پاکستانی فوج کے حکام نے رات 8 بجے ان کو اطلاع دی کہ عصمد غلطی سے ایل او سی پار کر گیا ہے۔ انڈین فوج نے ہاٹ لائن پر پاکستانی فوج کو عصمد کی گرفتاری کی اطلاع دی تھی جس بنا پر اگلے روز مقامی پولیس و فوجی حکام نے ان سے ملاقات بھی کی اور معلومات حاصل کیں۔ ضلع راولاکوٹ کے اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ پولیس خاور علی شوکت کے مطابق 14 برس کے عصمد کی گمشدگی ایف آئی آر درج کر رکھی ہے جو غلطی سے ایل او سی پار کر گیا تھا۔ انہوں نے ”بی بی سی“ کے نمائندے کو بتایا کہ 25 نومبر کو اطلاع ملتے ہی متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا جنھوں نے اس بارے میں انڈین حکام سے ہاٹ لائن پر رابطہ کر کے بچے کی گرفتاری کی تصدیق کی اور ان سے واپسی کے لیے گزارش کی تھی مگر متعدد بار رابطے کے باوجود انڈین حکام نے کوئی جواب نہیں دیا۔

آزاد کشمیر کے ضلع میر پور کی تحصیل ڈڈیال سے تعلق رکھنے والے برطانیہ میں مقیم واحد کا شر نے 14 سالہ عبدالصمد کی رہائی کے لئے سول سوسائٹی کی ایک مہم بھی شروع کی ہے۔ واحد کا شر کا کہنا ہے کہ چند ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر کی ایک جیل میں قید راولاکوٹ کے ایک نوجوان ضیاء مصطفی کو انڈین فوجی جیل سے اپنے ساتھ لے گئے اور بعد میں کہا گیا کہ ایک ہائیڈ آؤٹ کی نشاندہی کے دوران علیحدگی پسندوں نے اسے ہلاک کیا۔ واحد کا شر نے کہا کہ ضیاء مصطفی کو بھی انڈین فوج نے سیز فائر لائن ( ایل او سی) عبور کرنے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا تھا کہ جب اس کی عمر 14، 15 سال تھی، اور 18 سال جیل میں قید رکھنے کے بعد اسے انڈین فوج نے ایک جعلی مقابلے میں قتل کر دیا۔

واحد کا شر کا کہنا ہے کہ خطرہ ہے کہ انڈین فوج اسی طرح 14 سالہ عبدالصمد کو بھی اپنی کسی جعلی کارروائی میں استعمال کر سکتی ہے۔ انہوں نے انسانیت کی بنیاد پر اپیل کی کہ آزاد کشمیر کے 14 سالہ، نویں کلاس کے طالب علم عبدالصمد کی فوری رہائی اور اپنے گھر واپسی کو ممکن بنایا جائے۔ رواں مہینے جنوری میں ارونچل پردیش میں انڈیا کے ایک نوجوان لڑکے کو چین کے فوجیوں نے اپنے حدود میں اپنی تحویل میں لے لیا اور انڈین حکومت کی درخواست پر ایک ہفتے میں ہی اسے واپس انڈین حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

برطانیہ میں مقیم ”جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس“ کے سربراہ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا ہے کہ کشمیر کی سیز فائر لائن ( لائن آف کنٹرول) عبور کرنے کے الزام میں انڈین فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے آزاد کشمیر کے 14 سال عبدالصمد کے معاملے کے حوالے سے سیز فائر لائن کراس کرنے والے بچوں پر UNHRCکے 49 ویں اجلاس کے لئے ایک رپورٹ JKCHRکی طرف سے جمع کرائی جائے گی۔ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے مزید بتایا کہ کشمیر کی سیز فائر لائن پہ بارودی سرنگوں سے متاثر ہونے والوں کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں تو اقوام متحدہ میں اس متعلق بھی چارہ جوئی کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ریاست جموں وکشمیر و گلگت بلتستان میں ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان اقوام متحدہ کی زیر نگرانی یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی اور بعد ازاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہی سیز فائر لائن کا قیام عمل میں آیا اور اس سیز فائر کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کا ملٹری آبزرور گروپ تشکیل اور متعین کیا گیا۔ تاہم اقوام متحدہ نے ریاستی باشندوں کا اپنی ریاست میں آمد و رفت کا حق تسلیم کیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان طے پائے شملہ سمجھوتے میں کشمیر کو غیر

فطری طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ 2005 میں منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بس سروس میں بھی ریاستی باشندوں کا اپنے وطن میں پاسپورٹ کے بغیر آمد و رفت کا حق تسلیم کیا گیا۔

آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے 14 سالہ عبدالصمد کے معاملے پہ ایک استفسار کے جواب میں کہا کہ معاہدہ کراچی کے بعد یہ معاملہ آزاد کشمیر حکومت کے بجائے حکومت پاکستان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اصولی طور پہ یہ بات درست ہے تاہم آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی مکمل پیروی کرے اور معاملے میں پیش رفت سے آگاہ بھی رکھا جائے۔ اس معاملے کو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود سفارتی سطح پہ کسی ردعمل کا اظہار سامنے نہ آنا، بھی قابل تشویش امر ہے۔

آزاد کشمیر کے اس کم عمر معصوم نوجوان کی مقبوضہ کشمیر میں قید کو دو مہینے سے زائد وقت ہو چکا ہے، لیکن اب تک وزارت خارجہ کی طرف سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے کہ جس سے معلوم ہو سکے کہ آزاد کشمیر کے 14 سالہ عبدالصمد کی ہندوستان سے رہائی کی کوئی کوشش کی گئی ہو۔ نویں کلاس کے اس طالب علم کی رہائی میں تاخیر کا ہندوستانی رویہ باعث تشویش ہے۔ اس معاملے میں سرگرم سفارتی مہم کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی اداروں کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھایا جا سکے۔

عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی غیر فطری تقسیم پر مبنی سیز فائر لائن ( لائن آف کنٹرول) کو کشمیر کی دیوار برلن کا نام دیا جاتا ہے جس نے ایک ہی خطے اور وہاں مقیم لوگوں کو جبری طور پر ایک دوسرے سے دور رکھا ہے۔ انڈیا نے سیز فائر لائن پہ خار دار تاروں کی باڑ لگاتے ہوئے متنازعہ ریاست کی تقسیم کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جس سے متنازعہ ریاست کے باشندوں کو جبری طور پر ایک دوسرے سے دور رکھا جا رہا ہے۔

سیز فائر لائن عبور کرنے کے الزام میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں عبدالصمد کی گرفتاری کا یہ واقعہ ہزاروں مثالوں میں سے ایک نئی مثال ہے کہ کشمیریوں کو ایک دوسرے سے جبری طور الگ رکھنے والی لائن آف کنٹرول سے خطے کے لوگوں پہ کس کس طرح ظلم اور زیادتیاں کی جا رہی ہیں اور کس طرح انہیں اپنے ہی گھروں میں غیر قانونی طور پر داخلے کے الزامات میں گرفتار کیا جاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments