قبائل کی قربانیاں اور اس کے ساتھ نا انصافی


پاکستان میں قبائلوں نے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کو ہر وقت میں ہر حکومت نے نظر انداز کیا ہے۔

خان عبد الولی خان اپنی کتاب ”حقائق حقائق ہے“ میں لکھتے ہیں کہ 20 اپریل 1946 کو محسود ملک جس کا نام گلاب خان تھا جناح صاحب کو ایک خط لکھا۔

ڈئیر قائد اعظم ؛

میں جنوبی وزیرستان کے تمام محسود کی جانب سے حصول پاکستان کے لیے مسلح مدد کا یقین دلاتا ہوں۔ جب کبھی بھی مسلم لیگ کی ہائی کمان نے ایسا حکم دیا اس مشکل دور میں ہمیں اس قیادت پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم آپ کی زندگی اور صحت کے لیے دعاگو ہیں آپ کی باڈی گارڈ کے طور پر مسلح محسود دستہ بھیجنے کو تیار ہوں حکم کریں۔ پاکستان زندہ باد۔

قائداعظم کا جواب :
محترم جناب؛

مجھے آپ کا 20 اپریل والا خط موصول ہوا۔ آپ کی نیک خواہشات اور میری لیڈرشپ پر اعتماد کا شکریہ۔ جہاں تک میرے اسٹاف کا تعلق ہے میرے اپنے انتظامات موجود ہیں آپ کے خط کے شکریہ کے ساتھ فی الوقت آپ کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔

قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہے کہ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اس کثیر آبادی کو قابو رکھنے کے لیے سرینگر کے علاوہ وادی کے دوسرے اہم شہروں میں بھی ڈوگرہ فوج اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کے بڑے بڑے گروہ جمع کر رکھے تھے۔ جموں اور پونچھ کے واقعات کی خبریں سن سن کر وادی کے مسلمان بھی اپنے درندہ صفت حکمران کے عزائم سے بے خبر نہ تھے جیسے جیسے مختلف مقامات پر ڈوگرہ فوج اور ایس ایس کے مظالم مسلمانوں پر بڑھتے گئے۔ اسی رفتار سے مسلمانوں کا وہاں سے جانا شروع ہو گیا۔

پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں میں غم اور غصے کی آگ لگ گئی اور پٹھان قبائلیوں کے لشکر اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کے لیے جوق در جوق ایبٹ آباد کی راہ سے سوئے کشمیر اٹھ کھڑے ہوئے۔

یہ قبائلی لشکر نہ کسی تنظیم میں منسلک تھے اور نہ ان کی رہنمائی خیر گیری کے لیے کسی قسم کا ادارہ موجود تھا۔ جہاں کہیں سے وہ گزرتے تھے عوام الناس حیرت انگیز کشادہ دلی سے ان کی آؤ بھگت کرتے تھے خوراک مہیا کرتے تھے۔ اور جگہ جگہ ٹرک، تانگے اور بیل گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرتے تھے اور بغض بغض مقامات پر دریاؤں کو تیر کر یا بکری کی کھال کے بنے ہوئے مشکیزوں کا سہارا لے کر عبور کر لیتے تھے۔ 20 اکتوبر 1947 تک ایبٹ آباد اور مظفرآباد کے درمیان بڑاسی کے جنگل میں ہزاروں محسود، وزیر، آفریدی، اور مہمند قبائل کا ایک عظیم الشان لشکر جمع ہو گیا وہاں پر اس لشکر کی نگہداشت مردان کے خان خوش دل خان نے بڑی محنت اور فیاضی سے کی اور ہندوستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر خورشید انور نے اس کی کمان سنبھال لی۔ اس زمانے میں میجر خورشید انور پاکستان مسلم لیگ کی نیشنل گارڈ کے کمانڈر بھی تھے۔

لیکن پچھلی نواز شریف حکومت کے آخر میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ ضم نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں ہضم کر دیا گیا۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ آگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا تو یہ سوئی کو دریاں میں پھینکنے کے مترادف ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کو اپنے حقوق حاصل نہیں تو فاٹا کو ملنا ناممکن ہے۔

بالآخر سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے ارکان بھی موجود تھے۔ اس میں یہ طے ہوا کہ دس سال کے لیے فاٹا کو این ایف سی ایوارڈ تین پرسنٹ قبائل کو اپنے حقوق سے اضافہ دینا ہو گا۔ اس حساب سے ایک سال میں تقریباً سو ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ لیکن چار سال میں ابھی تک تقریباً ساٹھ ارب دیا گیا ہے۔

اب عمران خان کی حکومت یہ بہانے کرتی ہے کہ این ایف سی سندھ حکومت نہیں دینا چاہتی حالانکہ جس دن یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو پی پی پی کے رہنماؤں اور سارے سیاسی قیادت نے اتفاق کیا تھا۔ ابھی عمران خان این ایف سی اجلاس کیوں نہیں بلاتے کہ معلوم ہو جائے کون مخالفت کرتا ہے۔

جب پاکستان بیس سال سے مشکل میں تھا تو ان ہی قبائل نے قربانیاں دی ہیں ہزاروں کے شہید، لاپتہ اور بے گھر ہو گئے لیکن ان کو بدلے میں کیا ملا کچھ نہیں۔ اب کچھ دن پہلے حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے چھبیس ارب اور چالیس کروڑ روپے کو پروگرام میں شامل کیا ہے اللہ کرے کہ ان کو مل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments