کائی نئیگ: سندھ کی تاریخی اور سیاحتی پہاڑی وادیاں


سندھ میں بہت سے غیر دریافت شدہ ثقافتی، سیاحتی اور تاریخی پہاڑی وادیاں ہیں جنہیں سندھ کے ساتھ پاکستان کی مرتی ہوئی سیاحتی صنعت کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان وادیوں میں عظیم وادیٔ سندھ کی تہذیب کے آثار بھی ہیں تو ان وادیوں کی دلکشی سیاحت میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔ ان حسین وادیوں میں سندھ کے ضلع جامشورو کی تحصیل سیہون میں کائی اور نئیگ پہاڑی وادیوں کے خوبصورت مقامات شامل ہیں۔

ضلع جامشورو کے شہر سیہون سے مغرب کی طرف تقریباً 35 سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر کائی اور نئیگ کی وادیاں واقع ہیں۔ ان وادیوں کی طرف جانے والے راستے پر ایک بہت قدیم بستی بھی ہے جسے ’بلو جی بٹھی‘ (بلو کا ٹیلہ) کہا جاتا ہے، ”بلو جی بٹھی“ کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ سندھ میں کلہوڑہ دور کے بلو کھوسو کی قبر یہاں پہاڑی قسم کے ٹیلے پر واقع ہے۔ روایت کے مطابق بلو کھوسو ایک بہادر شخص تھا جس کی شہرت کائی کے پوری وادی میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس ٹیلے کے چاروں طرف ایک تباہ شدہ قدیم کوٹ یا پتھروں کی دیوار تھی جس کے اب محض آثار موجود ہیں۔

اس بستی کے نزدیک سیہون سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر، وادیٔ کائی ہے۔ جس کی طرف جو سڑک ہے اس کے دونوں اطراف میں پہاڑ خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑیاں کبھی سطح سمندر سے نیچے یا سمندر کے اندر تھیں کیونکہ پانی کی لہروں سے کٹاؤ کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک تنگ اور دشوار راستہ کائی وادی میں واقع سات غاروں کی طرف جاتا ہے۔ یہ غارین، جنہیں مقامی طور پر سندھی میں ”ست گھریوں“ (سات غاریں ) کہا جاتا ہے۔

یہ نیچے والی پہاڑی میں غار گاؤں محمد خان نوحانی کے مغرب میں ہیں جو ایک پہاڑی پانی کی ندی کے قریب واقع ہیں۔ اوپر والے غار گاؤں کے جنوب میں، پہاڑی کی چوٹی پر موجود ہیں۔ ان غاروں کے قریب ایک قدیم بستی بھی ہے جسے ایک قدیم کوٹ یا پتھروں کی دیوار دی گئی تھی۔ کوٹ کے احاطے میں قدیم بستی کی باقیات اور مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے ملے ہیں۔ کچھ برتن سرخ رنگ کے ملے ہیں اور کچھ سادہ ہیں۔ مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں کا تعلق وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب سے ہے۔ ان غاروں کے قریب، ایک باغ ہے جسے پنج تن جو باغ (پانچ تن کا باغ) کہا جاتا ہے جس میں کھجور اور دیگر درخت ہیں۔ یہاں صدیوں پرانے چشمے کے پانی پر چلنے والی آٹے پیسنے کی چکی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پانی کو مقامی لوگ کاشتکاری کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ کائی میں ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔

کائی کی وادی کے قریب مغرب میں وادیٔ نئیگ، ہے جس کے مشرق میں بڈرو پہاڑ اور مغرب میں کھیرتھر کا بھٹ پہاڑی حصہ ہے۔ یہ وادی سیہون سے تقریباً 45 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بھی وادیٔ کائی کی طرح کھجور کے درخت پوری وادی میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپل کے درختوں کے ساتھ دیگر درخت بھی وادی کے حسن میں اغافہ کرتے ہیں۔ پہاڑی کی چوٹی سے خوبصورت وادیٔ نئیگ کا نظارہ شاندار لگتا ہے۔ اس وادی میں بھی قدرتی پانی کے چشمے سے آنے والے پانی پر آٹے پیسنے کی چکی ہے جسے مقامی لوگ آٹا پیسنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

نئیگ گاؤں اور وادی پر نام وادی میں پہتی ہوئی نئیگ ندی کی وجہ سے پڑا۔ وادی نئیگ کے ارد گرد چار قدیم مقامات ہیں۔ سب سے پہلے لکھمیر۔ جی۔ ماڑی یا ٹیلہ ہے جو کہ نئیگ گاؤں کے جنوب میں ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک قدیم راستہ بھی نکلتا ہے جو سیہون سے نئیگ، ، نغاول، لاہوت لامکان اور ہنگلاج کی طرف جاتا ہے۔ دوسری جگہ نئیگ گاؤں کے شمال میں پہاڑی کی چوٹی پر بدھ مت کا سٹوپا اور غیر تعمیر شدہ قدیم کوٹ ہے۔

تیسری مائی روہی ہے، جس کو روایات کے مطابق ماضی کے ظالم بادشاہ لکھمیر کی بیٹی بتایا جاتا ہے۔ لکھمیر کے بارے میں افسانوی روایت ہے کہ اسے حضرت علی علیہ السلام نے مار دیا تھا۔ نئیگ میں ایک پانی کا گہرا چشمہ ہے جسے کنواں کہا جاتا ہے اور وہ حضرت علیؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس چشمے کے قریب صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تکیہ بھی ہے۔ نئیگ میں چوتھا مقام پیر قمبر علی شاہ (اول) کا مقبرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد ایران کے جیلان سے قلات اور بلوچستان کے زیدی شہروں میں ہجرت کر کہ آئے تھے اور پھر نئیگ وادی کو مسکن بنایا تھا۔

برصغیر پاک و ہند کے آثار قدیمہ کا بنگالی ماہر این جی مجمدار 1927 ء میں یہاں آیا تھا۔ اس نے لکھمیر۔ جی۔ ماڑی کی کھوجنا نہیں کی تھی۔ مگر اس کے بارے میں اپنی کتاب ایکسپلوریشنس ان سندھ میں لکھتے ہیں کہ یہ مقام 7000 سال قدیم ہے۔ مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے لکھمیر کی پہاڑی اور اس کی بنیاد کے آس پاس کے علاقے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مجمدار لکھتا ہے کہ پہاڑی کی بنیاد پر قدیم ملبہ اور دیگر پتھر کی دیواریں ملی ہیں جو کہ کئلکولیتھک (Chalcolithic) دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے بھی لکھمیر کی ماڑی کا مقام دیکھا ہے اور یہ سحر انگیز وادیاں گھومی ہیں۔ لکھمیر جی ماڑی پر وادیٔ سندھ بالخصوص موہنجودڑو کے دور کے سرخ پر سیاہ رنگ کی نقش نگاری والے مٹی کے برتنوں کے نمونے اور ایک قلعہ کی بنیاد بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

حکومت کی طرف سے لکھمیر جی ماڑی کے قدیم ٹیلے پر کھدائی کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ کائی نئیگ تاریخی پہاڑی وادیوں کو سیاحت کا مرکز بنانا چاہیے۔ اس سے ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور  اچھی خاصی آمدنی بھی ہوگی۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments