حکومت کے آخری سترہ ماہ


عمومی طور پر تمام حکومتیں شروع میں مشکل حالات کا سامنا کرتی ہیں۔ پچھلی حکومت خزانہ خالی کر کے رخصت ہوتی ہے۔ نئی حکومت کو اپنا خسارہ کم کرنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو اپنی سخت شرائط کے ساتھ قرض مہیا کرتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو مختلف ٹیکسز لگانے پڑتے ہیں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ڈیولپمنٹ ہوتی نظر نہیں آتی تاہم عوام اس کو کچھ عرصہ تک رعائت دیتے ہیں کہ آگے جاکر حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد ان کو ریلیف دے گی۔

الیکشن دور ہوتا ہے اس لئے حکومتی صفوں میں بھی اتنی بے چینی نہیں پائی جاتی۔ یہی سارے معاملات پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ بھی پیش آئے ان کو بھی آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرضے اٹھانے پڑے بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانی پڑیں اور عوام ان وعدوں پر کہ آگے اچھا وقت بھی آئے گا خاموش تماشا دیکھتے رہے۔ مگر ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی حالات ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے بلکہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حکومت کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے عالمی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہوا اس کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی پسپائی نے بھی تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

ان وجوہات کی بنا پر پاکستان میں مہنگائی کی شرح ہمسایہ ممالک سے تقریباً دوگنی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے لوگوں کے بجٹ تہس نہس کر دیے ہیں۔ جب عوام اپنی روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں تو ان کو معیشت میں بڑھوتری کا منترا کسی طور مطمئن نہیں کر سکتا۔ پی ٹی آئی جس نعرے کو بلند کر کے اقتدار میں آئی تھی کہ وہ کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب کر کے ان سے لوٹا ہوا مال وصول کرے گی اور کرپشن کی برائی کا خاتمہ کرے گی اس میں حکومت کو ناکامی کا سامنا ہے لوٹی دولت برآمد کرنے والے موصوف شہزاد اکبر صاحب اپنی ناکامی کی وجہ سے مبینہ طور ہر وزیراعظم کے عتاب کا شکار ہونے کے بعد اپنے عہدے سے برطرف ہو چکے ہیں۔

عوام کو تھانہ کچہری میں اسی طرح کی کرپشن کا روزانہ نظارہ کرنا پڑتا ہے اور کہیں تبدیلی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ بیوروکریسی بھی احتساب کے غلغلہ سے سہم کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گئی جس سے ڈویلپمنٹ کی رفتار بھی کم ہوتی نظر آئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات میں دراڑ پڑی دکھائی دیتی ہے۔ اور اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو کر پہلے سی گرمجوشی نہیں دکھا رہی ہے۔ آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر جو ڈیڈ لاک پیدا ہوا اس سے اس کم ہوتے باہمی تعلق کا بھانڈا بیچ بازار پھوٹ چکا ہے۔

حال ہی میں وزیراعظم نے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں آ کر جو باتیں کی ہیں اس سے ان کے لہجے میں بے چینی صاف نظر آئی انہوں نے فرمایا کہ وہ اگر حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ کچھ تجزیہ نگار ان کی اس دھمکی کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف بھی قرار دیتے ہیں۔ اس طرح خیبر پختونخوا میں الیکشن میں ناکامی کے فوراً بعد ایک اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما پرویز خٹک نے جس طرح ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کیا اس سے پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں انتشار اور کشمکش آشکارا کر رہے ہیں اسی طرح پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا سے ایک اور رہنما نور عالم خان نے بھی اپنی حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے۔

خانیوال پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں حکومتی شکست نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اب کچھ ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں حکومت سخت امتحان سے دوچار ہے۔ پنجاب کے کئی الیکٹیبلز پی ٹی آئی کی عوام میں ممکنہ کم ہوتی مقبولیت کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور ان سیاستدانوں کے لئے پارٹی سوئچ کرنا ایک معمول کی بات ہے جو ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پی ٹی آئی کو کئی انتخابی حلقوں میں مضبوط امیدوار ملنا مشکل ہو سکتے ہیں۔

کچھ حکومتی مشیر ان اپنی کاریگری سے شاید وزیراعظم کو سب اچھا ہونے کی نوید سناتے آرہے ہیں اس حوالے سے آج کل وزیراعظم کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کسان اس حکومت سے بہت خوش ہے اس نے بہت زیادہ پیسہ کما لیا ہے، اس میں شک نہیں کہ زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے جہاں شہری طبقے اور تنخواہ دار طبقے کی کمر ٹوٹی ہے وہیں کسان کو اس سے فائدہ ہونا چاہیے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود کسانوں کی فی ایکڑ اوسط پیداوار بہت کم ہو رہی ہے اس کی ایک وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے اسی بنا پر کم پیداوار کی وجہ سے گورنمنٹ کو تمام زرعی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔

اوسط پیداوار کم ہونے کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کی بجائے کمی آئی ہے اوپر سے ان پٹس جیسے بجلی ڈیزل کھاد وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے تعلیمی اور دوسرے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور کسان بھی معاشی مصائب کا شکار ہے۔ اس لئے یہ ایک گمراہ کن بات پھیلائی گئی ہے اور جس وجہ سے کسانوں کو کوئی بڑا پیکج نہیں دیا گیا ہے نہ ہی ان کو موجودہ فصل کے لئے کھاد کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے جس سے اوسط پیداوار مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس طرح دیہاتی حلقوں میں بھی اسی طرح کی بے چینی ہے اور پی ٹی آئی کو ان حلقوں میں بھی سخت چیلنجز کا سامنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments