سیاستدان بمقابلہ بیوروکریسی


ایک ڈاکو تھا، وہ گاؤں کے گاؤں لوٹ لیا کرتا تھا۔ لوگ دہائیاں دیتے رہتے مگر اس پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب وہ مر گیا تو اس کا بیٹا گروہ کا سربراہ بن گیا۔ بیٹے نے سوچا کیوں نہ میں ایسے کام کروں کہ لوگ میرے باپ کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ جب وہ لوٹ مار کرنے جاتا تو لوگوں کا مال و اسباب لوٹنے کے ساتھ ساتھ ان کے کپڑے بھی اتروا کر لے آتا۔ جب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے کہ اس سے اچھا تو اس کا باپ تھا جو کم از کم ہمارے جسموں پر کپڑے تو رہنے دیتا تھا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ شائع کی ہے کہ پاکستان نے کرپشن میں مزید 13 درجے ترقی کی ہے اور اب اس کا اسکور 140 ہو گیا ہے۔ خان صاحب کی خوبی ہے کہ اب تک انہوں نے جو جو وعدے اور دعوے کیے ہیں وہ سب کے سب الٹ ہو گئے ہیں۔ کرپشن کا نعرہ لگایا، کرپشن بڑھ گئی۔ مہنگائی ختم کرنے کا اعلان کیا تو مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ معیشت پروان چڑھانے کا دعویٰ کیا تو معیشت کی نیا ہی ڈبو دی۔

یہ تو وہ حقائق ہیں جو سب کے سامنے آتے ہیں مگر کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو پس پردہ رہتے ہیں۔ جن پر عوام کی نظر نہیں ہوتی کیونکہ ان کا عوام سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حالات و واقعات اور منظرنامہ اس وقت وطن عزیز کا ہے اس میں اگر فرشتے بھی حکومت کریں تو وہ بھی مکمل ناکام ہوجائیں۔

ایک صحافی، تجزیہ کار اور دانشور کا کام ہی یہ ہے کہ وہ حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرے۔ واقعات و حالات کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو اس کے مطلب کے نکات ہیں ان پر کھیل رہا ہے۔ جس طرح سیاست میں عدم برداشت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اسی طرح میڈیا میں بلیک میلنگ کا عنصر شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تیرا چینل یہ میرا چینل، یہ اپوزیشن کا صحافی اور یہ حکومتی صحافی والا رویہ انتہائی خطرناک ہے۔

سیاست دان پالیسیاں بنانے کے لیے ہوتے ہیں، ان پالیسیوں اور قوانین پر عمل درآمد کا کام افسر شاہی یا بیوروکریسی انجام دیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے کرپٹ شخص ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل ملک غلام محمد تھا، جس نے سیاست میں بیوروکریسی کی دخل اندازی کر کے ملک کا بیڑہ غرق کرنے کی شروعات کی۔ آج تک بیوروکریسی اس لبادے سے باہر نہیں آ سکی۔ سرکاری دفاتر میں جو فرعونیت کا اظہار ہوتا ہے اس سے اللہ کی پناہ۔ کام ٹکے کا نہیں کیا جاتا اور لاکھوں میں تنخواہیں اور مراعات حاصل کی جاتی ہے۔ کوئی ایسا حکومتی ادارہ نہیں جو کرپشن کے خول میں قید نہیں؟

تعلیم، صحت، ہاؤسنگ ورکس، لوکل گورنمنٹ الغرض تمام ادارے کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اگر رپورٹ پڑھی جائے تو آپ کو حقائق خود بخود واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر بیوروکریٹس اپنے فرائض کو ایمانداری اور دیانت داری سے ادا کریں تو کوئی سیاست دان ان کو دباؤ میں نہیں لے سکتا۔ پیسے لئے بغیر تو چپڑاسی بھی اندر جانے نہیں دیتا تو افسروں کا کیا مقام ہو گا۔ ملک وزیراعظم نہیں چلاتا، بیوروکریسی چلاتی ہے۔

وزیراعظم ہو یا کوئی وزیر سب سیکریٹریز کے محتاج ہوتے ہیں۔ یا تو بیوروکریسی کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں یا تو وہ اس کا ادراک نہیں کرنا چاہتی۔ جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے۔ اور جب یہی لوگ ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو پھر کتابوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں، کرپشن کی غضب کہانیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ فلاں سیاست دان نے یہ کر دیا اور فلاں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ جب آپ نے انہیں روکا ہی نہیں تو آپ کس طرح دودھ میں مکھی کی طرح نکل رہے ہیں۔

میری رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر کوئی بھی محب وطن شخص اس حقیقت سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ اس ملک کو تباہ و برباد کرنے میں جتنا کردار مقتدرہ اور مقننہ نے ادا کیا اتنا ہی کردار عدلیہ اور افسر شاہی کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنا کام دیانتداری اور ایمانداری سے ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی برتی۔ اپنے آپ کو لونڈی بنا کر پیش کیا۔

کراچی میں ایک تماشا لگایا ہوا ہے تجاوزات کے نام پر۔ غریبوں کے آشیانے منہدم کیے جا رہے ہیں مگر امیروں کی کوٹھیاں اور کاروبار کو بڑی ہی ذہانت اور چالاکی سے بچایا جا رہا ہے۔ ان افسران پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا جنہوں نے وہ آبادیاں قائم کرنے دی؟ انہیں پکڑا نہیں جا رہا جن کی ناک کے نیچے پلاٹس فروخت کیے گئے اور لیز دی گئی۔ ان سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کا احتساب سے قاصر ہے جنہوں نے غریبوں کے آشیانوں پر قبضے کیے اور دوسرے لوگوں کو بیچے۔ اس وقت پولیس اور انتظامیہ کہاں غائب تھی؟ اس غفلت اور کوتاہی کا کوئی عذر پیش کیا جاسکتا ہے؟

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر منظور کاکا کو بیرون ملک کس نے فرار کروایا۔ اس پر تحقیقات کا آرڈر کیوں نہیں جاری کیا گیا؟ انٹرپول کی مدد سے اسے پاکستان کیوں نہیں لایا جاتا۔ اس نے اکیلے تو اتنی غیر قانونی عمارتوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کی منظوری نہیں دی ہوگی، اس کے سہولت کاروں پر شکنجہ کب کسا جائے گا؟

مگر یہاں تو  سارا نزلہ غریب عوام پر ہی گرایا جا رہا ہے۔ جن کا خون نچوڑ کر ٹیکس لئے جا رہے ہیں اور انہی سے ان کے چھت چھینی جا رہی ہے۔

یہ تو ایک منظور کاکا ہے۔ راؤ انوار کیس کا کیا ہوا جس نے کئی معصوم جانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا؟ اسے بھی ضمانت پر باہر کیا ہوا ہے۔ عدلیہ کا یہ کام ہے کہ وہ صرف غریبوں پر اپنا قانون لاگو کروائے۔ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے سے وہ کیوں کترا رہی ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، اور وہ ضمانت پر رہا ہو کر جلسے جلوس کرتے ہیں۔ اور ایک عام آدمی روٹی چوری کر لے تو اس کی اتنی چھترول کیا جاتی ہے کہ وہ وہی مر جاتا ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین پر 450 ارب کی کرپشن کے کیس کا ہوا؟ شرجیل انعام میمن کرپشن کیس کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا، سیکریٹری بلوچستان مشتاق رئیسانی کرپشن کیس کا بھی کوئی منطقی انجام نہیں نکلا؟

جب عدلیہ اور بیورو کریسی جیسے مقتدر ادارے جو ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، وہی اپنے فرائض سے کوتاہی برتیں تو پھر لیاقت علی خان کے آخری الفاظ ہی یاد آتے ہیں :

”اللہ پاکستان کی حفاظت کرے!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments