پری زاد ناول یا ڈرامہ


آج سے آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ہفتہ وار میگزین میں ایک قسط وار ناول کا نام پڑھا اور نام پڑھ کر میں نے اس ناول کو پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر لڑکیوں کی طرح مجھے بھی ناولز پڑھنے کا شوق تھا لہذا میں شوق سے وہ قسط وار ناول پڑھتی رہی اس قسط وار ناول کا نام تھا ”پری زاد“ یہ نام مجھے بے حد دلچسپ لگا لہذا میں خود کو یہ ناول پڑھنے سے روک نہ پائی۔ میں نے آخری قسط تک پڑھا اور جب آخری قسط پڑھی تو میں رو پڑی کیونکہ اس کا اینڈ بہت دکھی کر دینے والا تھا اس کے بعد میں نے ان آٹھ نو سالوں میں بہت سارے ناولز پڑھے مگر کسی ناول نے مجھے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا اس نے کیا۔

ہاشم ندیم سے میرا پہلا غائبانہ تعارف یہی ناول تھا اس کے بعد میں نے ہاشم ندیم کے بھی کئی ناولز پڑھے مگر ایسا شاہکار ناول دوبارہ نہیں پڑھا۔ میں نے بعد میں کئی دفعہ سوچا کہ آخر اس ناول کی کس چیز سے مجھے اتنا زیادہ متاثر کیا کیونکہ بظاہر تو یہ شاید ایک عام سی کہانی ہے لیکن اس کی سب سے منفرد چیز اس کا مرکزی کردار ”پری زاد“ تھا جو کہ ایک بد صورت شخص تھا عرصہ ہوا ہمارے ادیبوں نے بدصورتوں کو اپنی کہانی میں جگہ دینا ہی چھوڑ دیا تقریباً ہر ناول نگار اپنے ہیرو اور ہیروئن کو غیر معمولی حسین اور ذہین دکھانا چاہتا ہے دوسرے اس ناول کا اینڈ ایسا تھا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ایک دفعہ جو قاری اس ناول کو پڑھ لے وہ پھر اس کا اینڈ کبھی نہیں بھول سکتا۔

جب میں نے یہ خبر سنی تھی کہ ناول کو ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جائے گا میں تھوڑا مایوس ہوئی۔ کیونکہ میں ناول کو ڈرامہ اور فلم بنا دیے جانے کے خلاف ہوں کیونکہ ناول ایک الگ قسم کی صنف ہے جسے انسان اپنے خیالات میں خود ہی ”ڈرامہ“ بنا لیتا ہے ہر کردار کا ایک الگ ہی امیج دماغ میں ہوتا ہے جسے مزید وضاحت سے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے آپ کو میری یہ بات عجیب اور بیوقوفانہ لگے مگر کم از کم میں اس بات کے خلاف ہوں۔

بہرحال مجھے معلوم تھا کہ ڈرامہ پری زاد شاید شروع میں نظر انداز کیا جائے مگر جلد ہی شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ جائے گا اور وہی ہوا میں نے یہ ڈرامہ پورا دیکھا اور کچھ شک نہیں تمام اداکاروں نے اپنے اپنے کردار بخوبی نبھائے خاص طور سے احمد علی اکبر نے ”پری زاد“ کا کردار اور نعمان اعجاز نے ”بہروز کریم“ کا کردار نبھانے میں اپنی پوری محنت لگادی جس کا انہیں ڈرامے کی کامیابی کی صورت میں صلہ بھی ملا۔ مگر میں ڈرامے کے اینڈ سے مایوس ہوئی ہوں شاید اس لئے کیونکہ میں نے ناول پڑھا ہوا تھا میرا خیال تھا کہ ڈرامہ کا اینڈ بھی ویسا ہی ایموشنل ہو گا مگر اس کی ہیپی اینڈنگ کر دی گئی جو کہ پری زاد کی کہانی سے میچ نہیں ہوتی۔

ایسا کیوں لگتا ہے کہ ناظرین صرف ہیپی اینڈنگ والے ڈراموں کو پسند کرتے ہیں جس ڈرامے کی اینڈنگ ہیپی نہ ہو اسے اتنی پذیرائی کیوں نہیں ملتی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہر کہانی اپنا اینڈ خود بتاتی ہے رائٹر کو اسے زبردستی کوئی رخ نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس سے کہانی خراب ہو جاتی ہے اور اینڈ بے تکا سا لگتا ہے ضروری نہیں کہ ہر کہانی کا انجام برا ہو یا ہر کہانی کا انجام اچھا ہو۔ مگر کچھ کہانیاں ہوتی ہیں جن کا انجام برا ہی ہونا چاہیے پری زاد کی کہانی وہی تھی۔

مجھے ہاشم ندیم صاحب سے یہی شکایت ہے کہ انہوں نے پری زاد کے انجام کا کچھ یادگار نہیں بنایا وہی روایتی اینڈ کیا جو آج کل ڈراموں میں ہوتا ہے ہاشم ندیم کا قلم ہمیشہ کچھ منفرد لکھتا ہے اس کا انجام بھی منفرد ہونا چاہیے تھا جو ہاشم ندیم کا خاصا ہے ان کے ہر ناول کا انجام بڑا اچھوتا ہوتا ہے وہ روایتی اینڈ کرنے سے گریز کرتے ہیں ہیں مگر نہ جانے کیوں اس بار ایسا نہ ہوا۔ میں چاہوں گی ہاشم ندیم صاحب اس بات پر غور کریں کہ وہ اپنے رنگ سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہے؟ کیونکہ ان کا قاری ان سے ہمیشہ کچھ منفرد کی توقع کرتا ہے لہذا انہیں اس بات پہ ضرور غور کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments